اس دن سے میں ڈرتا ہوں کہ رفعت ریاض بھی مایوس ہو جائے۔ بخدا‘ اس دن سے میں ڈرتا ہوں۔دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا۔ ایسا دانا تو کوئی نہیں کہ آنے والے کل میں ہمیشہ جھانک سکے۔ کبھی نہ کبھی اندازے سبھی کے غلط ہوتے ہیں۔ قرائن یہ ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کا زمانہ بیت گیا۔۔۔۔ اور کپتان کے لیے ایک تھوڑی سی مہلت ۔ ہو رہی ہے عمر مثل برف کم /رفتہ رفتہ دھیرے دھیرے دم بدم۔ اقتدار ایک امانت ہے، دولت مندی بھی ایک امانت ہے ، محض نعمت نہیں۔ کھرب پتیوں کو دھن دولت کیا دیتی ہے؟ عربوں کو زروجواہر کے انبار نے کیا دیا؟ نواز شریف کو اختیار فوج نے دیا، پھر بھٹو دشمن حلقہ ء انتخاب نے ؛اگرچہ بعد میں اپنے پائوں پہ کھڑے ہو گئے ۔کھڑے رہے تو ممکن ہے کہ کرامت ہو جائے ۔ اربوں ڈالر کی دلدل میں مگر کوئی کھڑا رہ سکتا ہے؟ بے نظیر بھٹو اور زرداری کو حادثوں کے طفیل کہ یہ ترس کھانے والی قوم ہے۔ اپنے بل پر عمران خان مقبول ہو ئے ۔ حکومت مگر تب پائی ، جب سہارا ملا ۔ جو خود سہاروں کا محتاج ہو، کسی اور کو کیا دے گا؟ پختونخواہ میں پٹواری کا مسئلہ چند ماہ میں سلجھا دیا تھا۔ پولیس بھی بہتر بنا دی تھی۔ پنجاب میں پٹواری اسی کرّوفر کے ساتھ کیوں دندنا رہے ہیں ۔پولیس کیوں دندناتی ہے؟ اس لئے کہ کپتان کی ترجیحات میں اصلاح کم ہے، اقتدار اور انتقام زیادہ۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ سرپرست لہذامطمئن ہیں اور خان شاد مگر کب تک؟ پختونخوا میں پٹوار کو سدھرتے نا چیز نے خود دیکھا۔ ہسپتالوں اور اسکولوں کو بہتر ہوتے بھی۔ پولیس کا قصہ بھی سن لیجئے۔ اطلاعات متضاد تھیں۔ پشاور کے کچھ اخبار نویسوں کا کہنا یہ تھا: دور کے ڈھول سہانے۔ پھر ایک ایسی شہادت ملی کہ بات واضح ہوگئی۔ ڈرائیور کا تعلق دوردرازکے ایک پشتون گاؤں سے تھا۔ اس نے بتایا کہ کچھ دن پہلے تک وہ ٹیکسی چلایا کرتا۔ ٹیکسی والے پولیس کا سب سے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ اس نے کہا: اے این پی کی حکومت میں اور اس سے پہلے علماء کرام کے اقتدار میں گاؤں تک پہنچنے کے لئے وہ 450 روپے الگ رکھ لیا کرتا۔ اب ایک روپیہ بھی درکار نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ الیکشن کی شب نشریات براہ راست تھیں۔ درجن بھر نتائج بھی آئے نہ تھے۔ پشاور میں ہمارے نمائندوں میں سے ایک نے کہا :عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں۔ پانچ سات نہیں تو دس بارہ سیٹیں۔ سوالیہ نظروں سے میں نے حبیب اکرم کی طرف دیکھا۔ گلی گلی گھوم کر نتائج اخذ کرنے میں اس تاتاری کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ ہنسا اور اس نے کہا: دریائے کابل کے اس پار کپتان کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کچھ دیر میں پشاور کے نتائج آئے تو کامران خان نے کہا: سارا شہر کھدا پڑا ہے ،اس کے باوجود؟ جی ہاں اس کے باوجود2013ء کے مقابلے میں دو گنا نشستیں ،33کی بجائے 65۔ اس لیے کہ ہسپتال، پولیس اور کالج تھوڑے سے سنور گئے تھے۔ یہی تو لوگ چاہتے ہیں۔انقلاب کون چاہتا ہے ؟ چھتیس میں سے پنجاب کے 25 اضلاع میں صحت کارڈ ضرور بانٹ دیئے ہیں۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ممکن ہے دو تین اور وزیر بھی سلیقہ مند ہوں مگر ڈاکٹر یاسمین راشد کے سوا کسی ایک کا نام بھی احترام سے لیا نہیں جاتا۔ حوالات میں مرنے والے الگ، چلا چلا کر کر خدا کی مخلوق کہتی ہے : کچھ نہیں بدلا، کچھ بھی نہیں۔ راولپنڈی کی شاہراہوں پر ایک باپردہ لیڈی ڈاکٹر مائک تھامے روتی پیٹتی نظر آتی ہے۔ کہنا اس کا یہ ہے کہ اس کے غریب خانے سے ملحق مکان میں خرافات کا میلہ مسلسل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے بقول پولیس والوں کی سرپرستی میں۔ ان کے نام گنواتی ہے ،ان کے عہدے بتاتی ہے ،سینہ کوبی کرتی ہے ۔سو شل میڈیا پر برپا یہ فلم جہانگیر اختر نے بھیجی ۔۔۔اور سوال کیا ہے :حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے ؟ وہی جہانگیر اختر تین ماہ سے تاجروں کے خلاف جو مورچہ لگائے بیٹھے ہیں؛ حالانکہ خود تاجر ہیں بلکہ تاجروں کے لیڈر ۔ اپنی امت کو ناراض کر لیا ۔اس لیڈی ڈاکٹر کی طرح رو رو کر تاجروں سے کہتے ہیں :اللہ کے بندو ،ٹیکس دے دیا کرو ۔ نہیں دو گے تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ پھر کیا کرو گے ؟سودا سلف کسے بیچو گے ؟ ہمیں اپنا نہیں ، جانِ تمنّا غم تمہارا ہے کہ تم کس پر ستم فرمائو گے ، جب ہم نہیں ہوں گے کس کرب سے کپتان کے فدائین دوچار ہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر شاید ان خطوط سے اجاگر ہو۔ ’’درخواست ہے کہ آپ عمران خان سے مل لیں۔ وہ پیچھے کیوں ہٹ رہے ہیں؟ بائیس برس سے انتظار تھا۔ ایک بھی خواب پورا نہ ہو سکا۔ براہ کرم ان سے مل لیجیے ‘ اپنے وطن کی خاطر۔ بجا کہ ناگزیر کوئی نہیںلیکن سفر طویل ہو جائے گا۔ پروفیسر صاحب سے دعا کی درخواست ہے‘‘رفعت ریاض کینیڈا خون کے کینسر میں رفعت ریاض مبتلا ہے ۔ اس کے باوجود اپنی زندگی سے زیادہ‘ اپنی اولاد کی طرح پاکستان کی فکر لاحق ۔ فیضؔ یاد آتے ہیں: کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلنار کریں کوئی پتھر دل ہی رفعت ریاض جیسی نجیب خاتون کو دکھ دے سکتا ہے۔ چونکہ بار بار لکھا ‘ مجبوراً عرض کرنا پڑا۔ ’’ ناچیز کے داخلے پر پابندی ہے۔ دربار سے یہ خطاکار ہمیشہ بے زار رہا۔اب بھی بے زار ہے۔ اپنے طور پہ بعض اخبار نویس احتجاج کر چکے۔ اس کے بعض دوست اصرار کر چکے۔وہ اعلان کرتا اور مکر جاتا ہے ،جس طرح پروفیسر صاحب سے کئے پیمان توڑ ڈالے تھے۔ اندازہ کیجیے‘ پروفیسر صاحب سے! معلوم نہیں کس عمران خان کی آپ بات کر رہی ہیں۔ وہ کوئی اور تھا۔ آپ نے غور نہیں فرمایا‘ پی ٹی آئی کے میڈیا سیل سے پیہم کردار کشی کے باوجود انصاف کا دامن الحمد للہ چھوڑا نہیں۔ اللہ تعالیٰ صحت کاملہ آپ کو عطا فرمائے۔ زندگی کا بھروسہ نہیں۔ یہ عبارت سنبھال رکھیے۔ میری موت کے بعد چھاپ دیجیے گا۔ کیا یہی کافی نہیں کہ اس شخص کے باب میں ہم خطا کار انصاف اور صبر پر قائم ہیں۔احقر ہارون الرشید کچھ دیر میں جواب آیا ’’بیتے دنوں کو اگر وہ بھول چکا تو خود خسارے میں رہے گا۔ یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اس کے لئے دعا کی‘ بائیس برس تک۔ ہر الیکشن میں پانچ لاکھ صرف کئے اور پاکستان پہنچ کر اس کے لئے ووٹ ڈالا۔ صحت کتنی خراب ہے‘ صرف اللہ جانتا ہے ۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔ وطن کی سلامتی و سرفرازی کا دن دیکھنا نصیب کرے۔ اچھے دن دیکھنے کی حسرت کے ساتھ1969ء میں 46سال کی عمر میں میرے والد وفات پا گئے۔ منو بھائی مرحوم کہا کرتے ’’رفعت‘ وطن کی محبت تجھے ورثے میں ملی ہے‘‘۔ اللہ مجھ خطا کار کی دعائیں قبول کرے۔ ‘‘ اگر کوئی پوچھے : کیا اپنی زندگی میں کوئی جنتی لوگ تم نے دیکھے ہیں تو میں کہوں گا:ایک نہیں ،بہت سے۔ وہ نوجوان اوربوڑھے ،ادنیٰ رزق سے جو اجتناب کرتے ہیں ، جن کے دلوں اور پیشانیوں پر سجدوں کے نشان ہیں ۔۔۔اورمیری ایک بہن رفعت ریاض جو دور کہیں رہتی ہے مگر میرے دل میں بھی۔اس دن سے میں ڈرتا ہوں کہ رفعت ریاض بھی مایوس ہو جائے۔ بخدا‘ اس دن سے میں ڈرتا ہوں۔دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا۔ پسِ تحریر: ابھی سوا چھ بجے رفعت ریاض کا ایک پیغام ملا ہے : اس سے پہلے کہ دعا کرتے ہاتھ گر جائیں ۔ خواب دیکھتی آنکھیں آپ کو نظر انداز کر دیں ۔ وقت کسی اور کو سامنے لائے ۔ قوم کسی اور کو چن لے ۔ عمران خان، ہمارا عمران خاں ہمیں واپس کر دو ۔ وہ کہ جس نے شوکت خانم بنایا اور عالمی کپ جیتا تھا ۔