بلھے شاہ نے فرمایا تھا: پڑھ پڑھ، لکھ لکھ لاویں ڈھیر ڈھیر کتاباں چار چوپھیر پچھو راہ تے خبر نہ سار گردے چانن، وچ انھیر علموں بس کریں اویار آج ہمارے اندر سے بھی اس سے ملتی جلتی آواز آ رہی ہے سیاست توں بس کریں اویار بعض شہر اور اہل ذوق کو یہ سطر پڑھ کر اگر عروض یا وزن کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ یہ سوچ کر درگزر فرمائیں اور اپنے دل کو تسلی دے لیں کہ یہ محض ایک جملہ ہے کوئی مصرع نہیں۔ لہٰذا آج ہلکی پھلکی غیر سیاسی گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہیمبرگ، جرمنی کا ایک حسین و جمیل شہر ہے جو دریائے ایلبے کے ذریعے سمندر سے ملا ہوا ہے۔ شہر میں بڑی پرکشش جھیلیں بھی ہیں جن کے اردگرد پھیلے ہوئے ریستوران ہیں۔ وہاں مرکزی شاہراہ پرانے اور نئے شہر کو آپس میں ملاتی ہے۔ میں یہاں سے گزرا تو ہوں مگر ٹھہر نہیں سکا۔ زندگی میں بعض اوقات زمان و مکان کا جبر یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ آپ چند لمحوں کے لیے رک کر الوداع کہتے ہوئے اپنے دوست کے لبوں پر ابھرنے والی مسکراہٹ کو رک کر انجوائے کرسکیں اور اس کا بھرپور شکریہ بھی ادا کرسکیں۔ چند روز پہلے اسی شہر ہیمبرگ کے بچوں نے ایک انوکھا مظاہرہ کیا جس کی بازگشت ساری دنیا میں سنی گئی۔ شہر کے سات آٹھ برس کے سینکڑوں بچوں نے ایک ریلی نکالی جس کی قیادت ایک سات سالہ بچہ ایمل رستگ کر رہا تھا۔ بچوں کا مطالبہ بڑا دلچسپ مگر حقیقت پسندانہ تھا۔ مطالبہ یہ تھا کہ ہمارے والدین ہر وقت سمارٹ فون سے کھیلتے اور دل بہلاتے رہتے ہیں وہ ہم سے کیوں نہیں کھیلتے۔ وہ ہمیں کیوں نہیں وقت دیتے۔ سمارٹ فون اس وقت صرف جرمنی کا نہیں ساری دنیا کا مسئلہ ہے۔ مائیں بچوں کو فیڈر سے دودھ پلاتے ہوئے بھی سمارٹ فون میں مشغول ہوتی ہیں۔ بچہ روتا اور چیختا رہتا ہے، مائوں کو کچھ ہوش ہی نہیں ہوتا۔ کیسی دلچسپ ایجاد ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ قریب آ گئے ہیں اور آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے آپ کے پیارے دور ہو گئے ہیں۔ ایک زمانے میں یورپ و امریکہ میں کتاب بینی کے ذوق کی داد دی جاتی تھی۔ لوگ جہاز اور ریل کے سفر کے دوران، قطاروں میں انتظار کرتے ہوئے، حتیٰ کہ ٹریفک سگنل کے سامنے انتظار کرتے ہوئے کتاب کے مطالعے میں محو ہو جاتے اور چند ساعتیں بھی ضائع نہ کرتے تھے۔ اب کتاب کی جگہ سمارٹ فون نے لے لی ہے۔ سفر کے دوران، ریلوے سٹیشن پر اور ایئرپورٹس میں مسافر آپ کو اپنے اپنے سمارٹ فونوں میں مگن دکھائی دیں گے۔ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے لوگوں کے حالات تو اور بھی دگرگوں ہیں۔ یہاں دن بھر محنت مزدوری کرنے والے اور گھریلو ملازمین وغیرہ بھی آدھی آدھی رات تک عام فونوں پر ایک دوسرے کی غیبت کرتے اور لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ کمپنیوں نے ساری ساری رات کے سستے پیکیج دے رکھے ہیں جن کی بدولت نوجوان طلبہ بھی مصروف رہتے ہیں۔ یہ تھکے ماندے لوگ اگلے روز تعلیم و ملازمت میں بے دلی کا شکار رہتے ہیں۔ صبح سویرے کی سیر اور ورزش توقع پارینہ ہے۔ اس اہم معاملے پر پاکستان کا میڈیا کوئی خاص توجہ نہیں دیتا۔ خیر بات ہیمبرگ جرمنی کے معصوم بچوں کے مظاہرے سے شروع ہوئی تھی جن کے ہاتھوں میں کتبے تھے جن پر بڑے دلچسپ نعرے لکھے ہوئے تھے کہ والدین ہماری طرف بھی توجہ کریں۔ اس عمر کے پاکستانی بچوں کو اگر اس طرح کے مظاہرے اور احتجاج کرنے کا شعور آ گیا یا کسی نے شعور اجاگر کردیا تو ان کے ہاتھوں میں جو کتبے ہوں گے وہ ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیں گے۔ مثلاً ہمیں جوہڑوں کا نہیں صاف ستھرا پینے کا پانی دو، ہمیں ملاوٹ سے پاک دودھ دو، ہمیں تباہ کن جعلی کولڈ ڈرنکس سے بچائو، ہمیں موت کے منہ میں جانے والی مضر صحت ادویات سے محفوظ رکھو وغیرہ وغیرہ۔ روزانہ بلاناغہ ایسی ایسی ہوش ربا خبریں میڈیا پر آتی رہتی ہیں کہ آدمی سوچتا ہے کہ جب انسان گرتا ہے تو پھر شاید پستی کی کوئی انتہانہیں رہتی۔ وہ ہر پستی تک جا سکتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے کچھ ہی روز پہلے ایک بڑے گودام میں چائے کی تیاری کا عمل دکھایا کہ کس طر ح نے کے چھلکوں کو پیس کر ان کے برادے میں ملایا جارہا ہے اور پھر تیاری کے آخری مرحلے میں چائے کے کیمیکل فلیور سے اس سارے مواد کو رنگ کر کے بوریوں میں بھر دیا جاتا ہے اور لوگ بڑی اچھی گہرے رنگ والی چائے کو استعمال کرتے ہیں۔ دودھ کہ جو بچوں کے استعمال کی بنیادی چیز ہے، اسے یہ موت کے سوداگر نہ جانے کس کس طرح سے تیار کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر قسم نہ صرف مضر صحت بلکہ جان لیوا ہے مگر کسی کو خوف خدا ہے نہ قانون کا ڈر۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کبھی کبھی بڑے پرجوش انداز میں ملاوٹ اور ہوٹلوں کی گندگی کے خلاف مہم چلاتی ہے اور پھر منقار زیر پر ہو جاتی ہے۔ جعلی کولڈ ڈرنکس فیکٹریاں عام ہیں۔ مرچوں میں سرخ اینٹیں پیس کر ڈالنے والی بات تو پرانی ہو گئی۔ کئی بار اس طرح کی مصدقہ خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی چالیس سے پچاس فیصد تک ادویات جعلی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک بار تو پنجاب میں ایک بہت بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا جس میں دل کی ایک جعلی دوائی کی بنا پر تقریباً 150 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ میں نے آغاز میں کہا تھا کہ آج ہلکی پھلکی گفتگو کی جائے گی اور اسے سیاست کی تلخی اور گرانباری سے بچایا جائے گا مگر کیا کروں میں بھی تو پاکستانی ہوں۔ ہم مشاہدہ حق کی گفتگو کریں یا کوئی علمی جستجو کریں یا پھر پیار و محبت کی باتیں کریں، کہیں نہ کہیں سے اس میں سیاست در آتی ہے۔ جن معاشروں کے ہمارے جیسے مسائل نہیں ہوتے، جہاں ناانصافی، ناخواندگی، غربت و افلاس، ناقص خوراک، جعلی ادویات اور پینے کے پانی کی نایابی اور کم یابی جیسے مسائل نہیں ہوتے وہ معاشرے علمی لطافتوں، شعری نزاکتوں اور خوب صورت انسانی جذبوں کی باتیں کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے جرمن جوڑے زیادہ بچوں کو پسند نہیں کرتے۔ ایک بچہ یا زیادہ سے زیادہ دو بچے۔ ایسی مائوں کی بھی خاصی بڑی تعداد ہے کہ جن کا پارٹنر انہیں چھوڑ گیا یا اچانک غائب ہوگیا اور بچے کوپالنے کی ساری ذمہ داری اکیلی ماں پر آ پڑی۔ بھائی بہنوں کی فوج ظفر موج کا وہاں کوئی تصور نہیں۔ بہن بھائی بھی تو بہت بڑی سپورٹ ہوتے ہیں۔ یورپ اور آسٹریلیا میں کم آبادی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مشترکہ خاندان کا تو کوئی تصور ہی نہیں۔ 18 برس کی عمر میں بالغ ہوتے اور گھر سے قدم باہر رکھتے ہی وہ اکثر بچے والدین کو بھول جاتے ہیں اور اپنی دنیا میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ امریکہ کے شہروں میں تو کم و بیش ایسی ہی صورت حال ہے مگر امریکہ کے دیہاتی علاقوں میں ابھی تک خاندان کی نعمت کسی حد تک موجود ہے اور وہاں کے کیتھولک عیسائی خاندان میں بچوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں سمارٹ فون کی برپا کی ہوئی ہولناک معاشرتی تباہی پر بڑی وسیع ریسرچ ہورہی ہے۔ اس ریسرچ میں والدین کی طرف سے بچوں پر توجہ نہ دینے کے جسمانی و نفسیاتی نقصانات کا جائزہ لیا جارہا ہے اور تجزیہ بھی کیا جارہا ہے۔ تاہم ہیمبرگ کے سات سالہ ایمل نے جس اعتماد اور حس ظرافت کے ساتھ والدین کو اپنا رویہ بدلنے اورسمارٹ فون کے استعمال کو کم کرنے کی طرف توجہ دلائی وہ لاجواب اور قابل داد ہے۔ ہیمبرگ کے بچوں کے ہاتھوں میں جوکتبے تھے ان پر بڑے دلچسپ سلوگن لکھے ہوئے تھے۔ ’’ڈیئر ڈیڈ اینڈ مام! ہم آپ کی نگاہ کرم کے محتاج ہیں۔ آپ ہمیں پیارکے قابل کب سمجھیں گے؟ یا پھر ہمارے اور آپ کے درمیان سمارٹ فون کب تک حائل رہے گا؟ میں نے دس بارہ برس ایک سات آٹھ سالہ بچی کے ہاتھ میں جو کتبہ اسلام آباد میں دیکھا تھا اس پر دل کو چھولینے بلکہ دل کی دنیا میں ہلچل مچا دینے والی عبارت درج تھی۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا کہ بغیر سبب بتائے لوگ نہ صرف راتوں رات بلکہ دن دہاڑے غائب کردیئے جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک لاپتہ شخص مسعود احمد جنجوعہ کی جرأت مند اور بہادر بیگم لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک چلا رہی تھی بلکہ اب تک چلا رہی ہیں۔ جنرل مشرف نے فخریہ اپنی کتاب میں لکھا کہ میں نے امریکہ سے ڈالر لے کر مطلوب پاکستانی ان کے حوالے کئے تھے۔ اس پس منظر میں اسلام آباد کی بچی کے ہاتھ میں جو کتبہ تھا اس کی عبارت یہ تھی Dear Uncle President! Please Find my dear Abbu. ہیمبرگ کے بچوں کی دنیا اور ہے اس لیے ان کے تھامے ہاتھوں میں جو کتبے ہوں ان میں والدین سے مطالبہ ہو گا کہ آپ ہمیں بھی تھوڑا سا وقت دیں جبکہ پاکستانی بچے اپنے اس صدر سے اپنے باپ کو ڈھونڈ لانے کا مطالبہ کریں گے کہ جس صدر نے انہیں غائب کروایا تھا اور اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔