سِکّہ بند،ترقی پسند شاعرِ عوام حبیب جالبؔ کی شاعری کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ عوام میں مقبول تو ہے مگر۔ ۔ ۔ یہ فیض ؔ صاحب کی طرح مستقبل میں زندہ نہیں رہے گی۔ پروپیگنڈے کا نام دے کر ان کے بارے میں ہمارے مارکسسٹ نقاد کہا کرتے تھے کہ۔ ۔ ’’بس یہ جلسے جلوسوں میں عوام کا خون گرمانے کی حد تک ہے ‘‘۔ ۔ ۔ اور پھر یہ اگر رہی بھی تو اُن کے گذر جانے کے سال دو سال بعد تک ۔ آج جالبؔ صاحب کے انتقال کو کوئی تین دہائی ہونے کو آرہی ہے۔اُن کی نظم ’’دستور‘‘ جو نصف دہائی پہلے ایوب خان کے خلاف کہی گئی تھی،آج برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں عوام کے دلوں میں دھڑکتی ہے۔اور تو چھوڑیں ، اس وقت ہندوستان میںمودی سرکار کے خلاف جو سب سے بڑی مزاحمتی تحریک چل رہی ہے، اُس میںجالب صاحب کی نظم ’’ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو ،میں نہیں مانتا،میں نہیں جانتا‘‘ کورس کی صورت میں گائی جاتی ہے۔ یہاں میں فیضؔ صاحب کی نظم ’’ہم دیکھیں گے،لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ کی اہمیت کم نہیں کر رہا۔ فیض ؔصاحب اور اُن کی شاعری کی آفاقیت تو عالمگیر ہے۔ مگر جالبؔ صاحب جیسے عوامی شاعر کی شاعری اُن ترقی پسند نقادان ِ ادب کو رد کرتی ہے جن کے بارے میں ،میں نے ابھی کہا بھی کہ جسے وہ محض پروپیگنڈا کہہ کر یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ یہ لمحوں کی شاعری ہے۔ یہ ساری تمہید میں نے اس لئے باندھی کہ یوم ِ کشمیرکے حوالے سے مجھے جالبؔ صاحب کی ایک اور تاریخی غزل یاد آرہی ہے۔جو انہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد لاہور کے موچی دروازے پر پڑھی تھی۔۔۔ حسیں آنکھوں،مدھر گیتوں کے سندر دیش کو کھو کر میں حیراں ہوں وہ ذکرِ وادیِ کشمیر کرتے ہیں پوری غزل ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی حکومت پر بھی صادر آتی ہے۔اور یہ شعر تو لگتا ہے جیسے ہمارے کپتان وزیر اعظم کے لئے لکھا ہو جو اٹھتے بیٹھتے مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کررہے ہوتے ہیں: سرِمنبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں علاج ِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں 5فروری کو یومِ کشمیر اُسی روایتی جوش و خروش سے منایا گیاجو 70برس سے ہمارے سویلین اور فوجی حکمراں مناتے رہے ہیں۔ میں اس وقت تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی تاریخ پر بہت زیادہ تفصیل سے تو نہیں جاؤں گا۔ لیکن اگر سرسری سا بھی جائزہ لیا جائے اور تاریخ کے اوراق الٹے جائیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ قیام ِ پاکستان کے بعد جب قبائلی مجاہدین جنہیں بھارتی حکمراں پاکستانی فوج کہتے ہیں،سرینگر سے محض چار کلومیٹر رہ گئے تھے ۔ ۔ ۔ یہی نہیں،بلکہ جب سرینگر کا پاور پلانٹ دھماکے سے اڑا کر سارے سرینگر کو اندھیروں میں ڈبو دیا گیا تھا تو کشمیرپر پاکستانی جھنڈا لہرانے میں ہفتوں ،دنوں نہیں ،گھنٹوں رہ گئے تھے۔ ایک تو بدقسمتی یہ ہوئی کہ اُس وقت دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور ہندوستان کے کمانڈر ان چیف ،انگریز ہی تھے۔تو جب وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے غیر منقسم ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کودہائی دی اور مداخلت کی درخواست دی تو اُس وقت بدقسمتی سے ہماری اس وقت کی قیادت نے کسی جرأت و ہمت کا مظاہرہ نہیںکیا۔اور یوں ،جب کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ سرینگر سے فرار ہوچکا تھا تو پھر بھارتی فوجوں کو سرینگر میں اتارنے اور عنان ِ حکومت سنبھالنے میں دونوں جانب کے انگریز کمانڈروں نے بھرپور کردار ادا کیا۔لیکن جہاں پاکستانی حکمرانوں نے اس کمزوری بلکہ بزدلی کا مظاہرہ کیا تو دوسری جانب اقوام ِ متحدہ میں ہمارے مستقل نمائندے سر ظفر اللہ خان نے ایک بڑے سفارتکار کی حیثیت سے کشمیر تنازعے کو اس طرح اٹھایا کہ جواہر لال نہرو جیسا اسٹیٹسمین اس بات پر مجبور ہوگیا کہ وہ اقوام ِ عالم کے سامنے یہ تسلیم کرے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔اور Plebisciteیعنی رائے شماری کے ذریعے ہی اس کا حل نکالا جائے گا۔ اس وقت کسی سپر پاور نے اس قرارداد کو بلڈوز نہیں کیا۔یہ قرارداد دسمبر1948ء میں پاس ہوئی تھی۔مظفر آباد سے لے کر چکوٹی تک ہمارا مکمل قبضہ تھا۔ساتھ ہی دوسری جانب کے کشمیری بھی اس بات کے لئے بے تاب و بے قرار تھے کہ لائن آف کنٹرول سے زنجیر ہٹا دی جائے۔مگر ہوا کیا۔ ۔ ۔ کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کی اکتوبر 1951ء میں شہادت کے بعد ہمارے حکمراں اقتدار کی بندربانٹ میں مصروف ہوگئے۔ اس وقت میں 1965ء کے آپریشن جبرالٹر کی تفصیل میں بھی نہیں جاؤں گا کہ جب ایک بار پھر ہمیں اس بات کا موقع ملا تھا کہ ہم کشمیر میں اٹھنے والے ابھار سے فائدہ اٹھا کر دونوں جانب کے کشمیریوں کو ایک کردیتے۔ اور پھر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد تو ہماری ساری دنیا میں وہ جگ ہنسائی ہوئی کہ کشمیر تو دور کی بات ہے۔ ۔ ۔ بچے کچھے پاکستان کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا۔ شریفوں اورزرداریوں کے دور کو تو چھوڑ دیں۔کہ ان کے سارے مفادات اپنے خاندان اور اقتدار کے لئے تھے۔اور جو دو دہائی تک ایک دوسرے کو ختم کرنے کے در پے رہے۔تاکہ اسلام آبا د کے تخت پر وہ اور بعد میں اُن کی آل اولاد حکومت کرتی رہے۔ ۔ ۔ ایسے میں انہیں مسئلہ کشمیر سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔جہاں تک تحریک انصاف کی حکومت کا تعلق ہے تو پہلے بھی کئی بار لکھ چکاہوں کہ 5اگست2019ء کے بعد جو سارا کشمیر آتش فشاںبنا ہوا تھا، خان صاحب کی حکومت ،اُن کی آوازوں بلکہ چیخوں سے ساری دنیا کو ہلا سکتی تھی۔مگر ہم سلامتی کونسل میں محض ایک قرار داد لانے میں بھی ناکام رہے۔ ہاتھوں کی زنجیریں بنانے سے اور مظفر آباد کی اسمبلی میں نعرے بازی سے تحریک ِ آزادی کشمیرکی ہم کوئی خدمت نہیں کررہے۔بلکہ اس وقت جو سری نگر میں جو ایک قیامت کا منظر ہے۔ ۔ ۔ اُس میں ہم مزاحمت کرنے والے کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ اسی لئے مجھے شاعرِ عوام حبیب جالبؔ یاد آئے کہ جنہوں نے کہا تھا۔ ۔ ۔ میں حیراں ہوں وہ ذکرِ وادیِ کشمیر کرتے ہیں ٭٭٭٭٭