اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان، مہاتیر محمد کے پرانے مداح ہیں۔ مجھے وہ تقریب اچھی طرح یاد ہے جس میں مہاتیر محمد کو عمران خان کی پارٹی نے اسلام آباد مدعو کیا تھا۔ اس وقت مہاتیر اقتدار سے الگ ہو چکے تھے اور عمران کو ابھی اقتدار کی ہوا تک چھو کر نہیں گزری تھی، ان دنوں سنگاپور کے لی کیوآن کا بھی بڑا چرچا تھا جس نے ملائیشیا سے الگ ہو کر اپنے چھوٹے سے جزیرے کی قسمت بدل دی تھی۔ نوازشریف اس سنگاپوری ماڈل کے مداح تھے۔ یہ درست بات ہے کہ ان ممالک نے کس طرح دنیا میں اپنی اقتصادی پیش رفت سے دھومیں مچا دیں، مگر میں اکثر سوچا کرتا ہوں کہ سارے ایشیائی ٹائیگر اسی خطے میں کیوں پیدا ہوئے اور مسلسل پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ آخر دولت کی فراوانی تو مشرق وسطیٰ میں بھی ہے۔ وہ صنعتی میدان میں کیوں پیچھے رہ گئے۔ میں گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں چند ہفتوں کے لیے آسٹریلیا میں تھا۔ وہاں کی بحثیں سن کر ایک دن میں نے چڑ کر کہا، آپ کا ایشیا آخر بنگلہ دیش کے اس طرف ہی کیوں ختم ہو جاتا ہے حالانکہ ایشیا ایک بہت بڑا براعظم ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس خطے کی سیاست اور پھلتی پھولتی معیشت کا مطالعہ بہت دلچسپ سوال پیدا کرتا ہے۔ اس سے ہمیں آسانی ہو سکتی ہے کہ ہم سچ مچ ترقی کے اس ماڈل کو سمجھ سکتے ہیں۔ مہاتیر محمد سے پہلے بھی ملائیشیا میں برے لوگ نہ تھے، تنکو عبدالرحمن، تنکو عبدالرزاق، آخر ملائیشیا میں ترقی کا سفر اس وقت کیوں شروع ہوا جب اس سارے خطے نے شیر بننے کے لیے اکٹھے انگڑائی لینا شروع کردی۔ جمہوریت؟ مگر یہ ممالک جمہوریت کے کوئی آئیڈیل ماڈل نہیں رہے۔ یہ سارا خطہ جنوبی کوریا، تائیوان، ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور اب ویت نام بھی کس طرح ترقی کے سفر پر ایک ساتھ ہی روانہ ہو پڑا تھا۔ شاید جاپان کو بھی اپنے اردگرد ممالک کی ضرورت پڑ گئی تھی، اپنی صنعتی ترقی کے لیے۔ امریکہ کو بھی یہ بات اچھی لگی تھی۔ ان ملکوں کی قیادت کے لیے بھی یہ سفر ناگزیر ہو گیا تھا یا انہوں نے ممکنہ امکانات سے پورا فائدہ اٹھایا تھا۔ خوشحالی کے بعد آدمی نظریاتی بھی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے موقف پر سٹینڈ لینا بھی آ جاتا ہے۔ یہی ملائشیا وہ واحد ملک تھا جس نے 65ء کی جنگ میں سلامتی کونسل میں پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیا تھا جبکہ انڈونیشیا کی آبدوزیں اور ان کی بحریہ ہماری امداد کے لیے کھلے سمندروں میں اتری ہوئی تھیں۔ ترکی اس زمانے میں کوئی غیر معمولی ملک نہ تھا۔ وہ ابھی طیب اردوان کی قیادت سے کوسوں دور تھا مگر وہاں کی قیادت اور عوام دل و جان سے ہمارے ساتھ دے رہے تھے۔ طیب اردوان نے جب سے ملک کو سنبھالا، تب سے ہم دیکھ رہے کہیں کہ وہ بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا رہا ہے۔ اس کے اسرائیل سے تعلقات ہیں مگر اس کا جہاز فلوٹیلا غزہ کے محاصرے کے خلاف یک جہتی کے لیے میدان میں اترا تھا۔ جب سے ترکی کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوتی ہے لگتا ہے طیب اردوان ہر محاذ پر اسلام کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے لاریب آپ کو اقتصادی طور پر مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنے دفاعی معاملات میں عالم اسلام میں نمبر ایک حیثیت رکھتا ہے، تاہم ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری حیثیت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم ماضی میں بار بار دنیا کے لیے ماڈل بنتے آئے ہیں۔ بار بار ایسا ہوا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی نظر میں ہم پر اٹھی ہیں مگر ہم ہمیشہ طرح دے جاتے رہے ہیں۔ ایک بار پھر موقع آیا تھا کہ ہم معیشت کے میدان میں تیزی سے ڈگ بھرتے ہوئے منزلیں پھلانگتے جاتے۔ ہم نے توانائی کے مسائل پر تقریباً قابو پا لیا تھا، لاجسٹک کے معاملات طے کرلیے تھے۔ عالمی سرمایہ کار پاکستان آنے کو پرتول رہے تھے۔ تمام بین الاقوامی ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ کو نہایت مثبت قرار دے دیا تھا۔ ہماری سٹاک مارکیٹ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے لیے بہترین آپشن سمجھی جانے لگی تھی۔ پھر کیا ہوا ہم سیاست میں الجھ گئے۔ جس طرح ایک زمانے میں جاپان کو اپنے اردگرد کے ممالک کی ضرورت تھی کہ انہیں ایشیائی ٹائیگر بنایا جائے۔ اس طرح چین کو ہماری ضرورت تھی اور ہے کہ وہ ہمیں اپنی اقتصادی توسیع کے لیے بروئے کار لائے۔ سب کچھ ہورہا تھا صرف ہم بگڑ گئے۔ تاریخ ایسا موقع بار بار نہیں دیا کرتی۔ وہ موقع ہم نے خراب کیا مگر بالکل ضائع نہیں ہوا۔ اب بھی ہم اس ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرسکتے ہیں۔ اگر ہم سیاست بازی سے باز آ کر اپنے ملک کی تعمیر میں لگ جائیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے درست کہا کہ مسلم دنیا میں حکمران صرف آفس ہولڈر ہوتے ہیں، لیڈر نہیں۔ ملائیشیا کے ماڈل سے سیکھنا ہے تو یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ لیڈر بننے کے لیے پہلے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ملائیشیا اور ترکی دونوں کے ماڈل مکمل اور آئیڈیل نہیں ہوں گے تاہم ان سے سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے یاد ہے کہ مہاتیر محمد جب عمران خان کی دعوت پر پاکستان آئے تھے تو انہوں نے اپنا اقتصادی ماڈل کیسے بیان کیا تھا۔ کیسے انہوں نے زرعی معیشت کو اہمیت دی اور کھیتوں سے شہروں تک کیسے رابطے مضبوط کئے۔ رسل و رسائل کو کیسے طاقت بخشی۔ ہمارے ہاں یہ پراسس شروع ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کو اسے مزید تقویت دینا چاہیے۔ سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا، ہانگ کانگ سب ایک خطے میں ہیں۔ ان میں فلپائن، تائیوان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور ویت نام بھی شامل کرلیجئے۔ اندازہ لگائیے کہ کس طرح ہر ملک نے اپنے اپنے حالات کے مطابق فیصلے کئے۔ ملائیشیا میں مقامی ملائی باشندے، چینی لوگ اور ہندی نژاد آبادی میں کس طرح تصادم تھا۔ اسے کیسے حل کیا گیا۔ صرف یہ کہہ دینا کہ جب 1997ء کا کرنسی کا بحران پیدا ہوا تو ملائیشیا نے کیسے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، کافی نہیں ہے۔ اس وقت تک ملائیشیا اقتصادی طور پر اس منزل پر پہنچ چکا تھا کہ عالمی سرمایہ کاروں کا مقابلہ کر سکتا تھا جس طرح آج ترکی، امریکہ کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اقتصادی طور پر آپ مضبوط نہ ہوں تو آپ کی ایٹمی طاقت بھی آپ کو بچا نہیں سکتی۔ مثال کے لیے سوویت یونین کا حال دیکھئے۔ اب دنیا کے نقشے پر کوئی اس نام کا ملک موجود نہیں ہے۔ اقتصادی دبائو کی بنا پر سوویت یونین نے خود کو توڑ کر اپنے آپ کو بچا لیا۔ اس کے سارے ٹکڑے آج خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ ملک بچانے کے لیے ملک توڑا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اقتصادی مسائل بعض اوقات ملک توڑ دیتے ہیں اور آپ کی ساری عسکری قیادت بے بس ہو جاتی ہے۔ ملکوں کی مضبوطی کا ایک بنیادی تقاضا ان کی اقتصادیات کا مضبوط ہونا ہے۔ یہ اس کے عسکری طور پر مضبوط ہونے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ فوجیں ملکوں کو دشمن سے بچاتی ہیں، اپنے آپ سے نہیں۔ اگر ہم نے اپنے آپ کو مضبوط رکھنا ہے تو ہمیں اپنی اقتصادیات کو مضبوط رکھنا پڑے گا۔ ایک زمانے میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کو اقتصادیات کے کسی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ضرورت ہے۔ یہ نہ ملا تو یہ سوچا ہماری اجتماعی عقل مل جل کر کچھ نہ کچھ دال دلیا کرلے گی۔ شاید اللہ ہم پر خوش تھا۔ ہم درست سمت چل پڑے تھے۔ یہ اندازہ نہ تھا کہ ہم اپنے ساری اقتصادی بندوبست کو یوں تار تار کردیں گے۔ یہ گویا فطرت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ میں سنبھل سنبھل کر لکھ رہا ہوں۔ یاد رکھئے، ہمارے کندھوں پر اس وقت کئی ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک کمینہ دشمن ہے۔ دوسری طرف سمندر پار سے پوری دنیا کی سامراجی قوتیں اگر براجمان ہوگئی ہیں۔ ہمارے کندھوں پر اپنی سلامتی کی ذمہ داری ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے سر پر بڑے قرضے ہیں۔ یہ بھی شاید ناگزیر تھے۔ بحث کی ضرورت نہیں، صرف یہ عرض کرنا ہے، ہم یہ دو ذمہ داریاں پوری کرسکیں تو ملک کو چلانے اور ترقی کا سفر طے کرنے کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں وسائل چاہئیں، مضبوط معیشت درکار ہے۔ صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنی توجہ اپنی اس بنیادی ضرورت کی طرف دیں۔ یہ کریں گے تو پھر ہی ہمارا وجود قائم رہ سکے گا۔ ہماری بقا اور سلامتی کا سوال ہے۔ ملائیشیا سے کچھ سیکھ سکتے ہیں تو ضرور سیکھ لیں۔ بھیک مانگنے سے گزارا نہیں ہوگا، ہمیں سیکھنا ہوگا، سیکھنا ہوگا۔