سی پی این ای کی قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں کی سائیڈ لائن پر وزیراعظم، وزیراعلیٰ، سپیکر ،گورنر اور لیڈر آف اپوزیشن سے ملاقاتوں کی روایت عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اپنی خاندانی وضع داری نبھاتے ہوئے میڈیا سے دوستانہ انٹر ایکشن اور ان کی میزبانی کرتے رہتے ہیں ۔بدھ کو ان کا فون آیا کہ جمعہ کو ساڑھے بارہ بجے میرے ساتھ گپ شپ کے لیے آئیںجس پر میں نے کہا ساتھیوں سے مشورہ کر کے عرض کرونگا۔ انھوں نے انکشاف کیا ان کا سٹاف پہلے ہی رابطے کر چکا ہے۔ ہمارا خیال تھا یہ محض ایک روٹین کی میٹنگ ہو گی جو ایک گھنٹے میں ختم ہو جائے گی لیکن چودھری صاحب طویل گپ شپ کے موڈ میں تھے۔ نماز کے وقفے سمیت یہ میٹنگ دو گھنٹے تک چلتی رہی ۔میں نے اپنے ابتدائی کلمات میں چودھری صاحب سے فرمائش کی کہ میڈیا کے معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں آج ہمیں عمومی سیاسی معاملات بالخصوص مسلم لیگ (ق ) کے اپنی بڑی حلیف جماعت تحریک انصاف کے ساتھ تعلقات کار کے بارے میں بتائیں۔ یہ کہہ کر گویا میں نے ان کی دکھتی رگ چھیڑ دی ، انھوں نے بتایا حکمران جماعت نے مذاکرات کے لیے ایک نئی کمیٹی بنا دی ہے جو گورنر چودھری محمد سرور ،وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود پر مشتمل ہو گی ،اس سے پہلی والی کمیٹی جو وزیر دفاع پرویز خٹک ،جہانگیر ترین اور ارباب شہزاد پر مشتمل تھی بظاہر بغیر کسی وجہ کے تحلیل ہو گئی ہے حالانکہ متذکرہ کمیٹی سے مذاکرات کے نتیجے میں بقول چوہد ری صاحب صحیح سمت میں پیش رفت ہو رہی تھی ۔ انھوںنے ہلکے پھلکے انداز میں کہا حکومت کے ساتھ ان کے معاملات کمیٹیوں پر چل رہے ہیں ،ہمارے ساتھ معاملات کو دیکھنے کے لیے پہلے ایک کمیٹی بنائی پھر دوسری اور اب تیسری ،ہمیں نئی حکومتی کمیٹی کی سمجھ نہیں آئی ۔ ایک کمیٹی بنتی ہے دوسری ڈلتی ہے ۔ہم نے بھی کمیٹی ڈالی ہے جو ابھی نکلی نہیں ساتھ ہی انھوں نے بابا بلھے شاہ کا یہ شعر پڑھا ’’اگلی توں نہ پچھلی توں، میںصدقے جاواں وچلی توں ‘‘۔ چودھری صاحب کے لہجے میں اپنی حلیف تحریک انصاف سے ناراضگی کافی نمایاں تھی ۔اس سے پہلے کہ نئی کمیٹی کام شروع کرے مسلم لیگ (ق ) نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے ۔گورنر سرور اور چودھری برادران کے درمیان تناؤ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ،اسی طرح چودھری صاحب کے کیمپ میں تاثر پایا جاتا ہے کہ شفقت محمود ان کے مخالف ہیں اور جہاں تک عثمان بزدار کا تعلق ہے ہر چند ہیں کہ نہیں ہیں ۔ق لیگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا گلہ ہے کہ گورنر چودھری سرور ان کے حلقے میں مداخلت کرتے ہیں ۔ چودھری صاحب کا اعتراض تھا ایسی کمیٹیاں باہمی صلاح مشورے سے ہی بنائی جاتی ہیں لیکن خان صاحب کے متذکرہ اقدام کے بارے میں غالباً انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس طرح وہ بحران جو بظاہر سمٹتا ہوا نظر آ رہا تھا دوبارہ بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ نہ جانے موجودہ حکومت کے کارپردازان اجتماعی خود کشی پر کیوں تلے ہوئے ہیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان مل بیٹھ کر ون آن ون میٹنگ میں سارے معاملات طے کر لیتے ،کمیٹیاں بنانا تو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ پرویزالٰہی نے کھل کر ایڈیٹروں کے سوالات کے جواب دیئے،انھوں نے بتایا کہ ان سے وفاق میں دو وزارتوں جبکہ پنجاب میں چار کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن جب برخوردار مونس الٰہی کا نام دیا گیا تو خان صاحب طرح دے گئے اور کہا آپ چودھری شجاعت کے صاحبزادے شافع حسین کو بنا لیں۔ اگر وزارت کے معاملے پر مقصد دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈالنا تھا تو یہ چال ناکام رہی کیونکہ چودھری برادران ہوں یا شریف برادران سیاسی معاملات پر یہ بنیان مرصوص بن جا تے ہیں۔پرویزالٰہی نے انکشاف کیا کہ عمران خان کی رائے معلوم ہونے کے بعد مونس الٰہی اب کابینہ میں شمولیت کے خواہشمند ہی نہیں ہیں۔ پرویزالٰہی نے ان تمام گلے شکووں کے باوجود کہا کہ وہ حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور عثمان بزدار کے پیچھے کھڑے ہیں ۔ دوسری طرف جب ان سے سوال کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کے رابطے بحال ہو چکے ہیں تو انھوں نے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا رابطے تو سب سے ہوتے ہیں۔میرے علم میں ہے کہ یہ رابطے استوار ہو چکے ہیں بالخصوص چودھری برادران کے اس استدلال کے بعد کہ میاں نوازشریف کو بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ پارلیمنٹ میں بھی مسلم لیگ (ق ) اور (ن) کے درمیان تال میل کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے گویا کہ چودھری برادران نے جو جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اپنے بزرگ چودھری ظہورالٰہی کی طرح اپنے راستے کھول لئے ہیں۔چودھری صاحب نے میرے اس سوال کہ آپ کے لیے یہ پہلا سیاسی اتحاد تو نہیں ہے کے جواب میں اپنے سابق تجربے کی روشنی میں برملا طور پر کہا کہ شریف برادران اپنے وعدوں سے پھر جانے کے عادی ہیں، نواز لیگ پر بھروسہ نہیں کر سکتے لیکن انھوں نے پیپلزپارٹی کی تعریف کی کہ زرداری صاحب نے ان کے ساتھ کئے گئے وعدے نبھائے ۔تحریک انصاف ہماری نیچرل پارٹنر ہے ہم چاہتے ہیں کہ اتحادی کو مخلص اتحادی سمجھا جائے ہمیں سوتن نہ سمجھا جائے، جو معاہدہ ہوا تھا اس پر عمل درآمد کیا جائے ۔معاہد ے کے مطابق ق لیگ کی اکثریت والے چار اضلاع کے تمام امور ہماری صوابدید پر ہونے چاہئیں تھے اور ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ فراہم کیے جائیں۔ پرویزالٰہی کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب اپنے ریکارڈ پر فخر ہے، وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پنجاب کا اسی فیصد سے زائد بجٹ صوبے پر خرچ کیا جبکہ موجودہ پنجاب حکومت اس کا عشر عشیر بھی خرچ نہیں کر سکی ۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے دور میں ٹھوس کام کئے گئے جبکہ شہبازشریف کے دور میں ترقی محض ترقی معکوس تھی ۔اگرچہ پنجاب کی حالیہ سیاسی تاریخ میں ایسی روایات موجود ہیںجہاں چھوٹی جماعتوں کے نمائندے بھی وزیراعلیٰ بن گئے ۔جب میاں نوازشریف کے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں پینترا بدلا گیا تو غلام حیدر وائیںکی جگہ منظور وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے ۔موجودہ صورتحال میں بھی اگر خان صاحب کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولا توا س امکان کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا کہ پرویزالٰہی مسلم لیگ (ن) کے تعاون اور اڑان بھرنے والے پنچھیوں کے تعاون سے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں ۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ خان صاحب اپنے لیے نت نئے محاذ کیوں کھول رہے ہیں۔ اپوزیشن کی قیادت تو ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئی ہے لیکن لگتا ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ دوسری طرف گورننس کا حال اتنا پتلا ہے کہ نجی شعبے سے بڑے تزک و احتشام سے لائے گئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی ایک ماہ میں دوسری مرتبہ بظاہر خرابی صحت کی بنا پر غیر معینہ مدت کے لیے رخصت پر چلے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پرPanic Attack))گھبراہٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ یقینامحصولات میںریکارڈ کمی باعث تشویش ہے۔ جس میںصرف جنوری میں سو ملین کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ اس لیے وزیراعظم کو حلیفوں سے معاملات ٹھیک کر کے دلجمعی سے پاکستان کو موجودہ اقتصادی گرداب سے نکالنے اور گورننس کے معاملات بہتر بنانے کی سعی مسلسل کرنی چاہیے۔