میرا ماننا ہے کہ میاں نوازشریف یہ فیصلہ کہ کب باہر جا نااورکب واپس آنا ہے؟ کرنے میںہمیشہ غلطی کرجاتے ہیں۔میرا یہ بھی ماننا ہے ملکی سیاسی تاریخ میں میاں نوازشریف سب سے زیادہ سیاسی غلطیاں کرنے والے سیاست دان ہیں۔جب مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں یہ تیسری بار وزیرِ اعظم بنے تو خیال ظاہرکیا گیاکہ اب کوئی بڑی سیاسی غلطی نہیں کریںگے۔مگردوہزار تیرہ سے دوہزارسترہ تک وزیرِاعظم رہنے تک پے دَرپے غلطیاں کرتے رہے،نتیجہ یہ نکلاکہ تیسری بار بھی بطور وزیرِ اعظم اپنی مُدت پوری نہ کرسکے۔اِن کا تیسری بارمُدت پوری نہ کرسکنا،اگرچہ بڑا واقعہ ہے ،مگر اس سے بھی بڑاواقعہ ،اُس نقصان کی صورت رُونما ہواجو اِن کے طرزِ سیاست کی وجہ سے اِن کی اپنی پارٹی کو اٹھانا پڑا۔ پانامہ اسکینڈل ،پی ایم ایل این کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا تھا۔لیکن یہی اسکینڈل ایک نئی پی ایم ایل این کا ظہور بھی ٹھہرسکتاتھا۔ایک مختصر مُدت کے لیے یہ اسکینڈل نئی پی ایم ایل این کاظہورٹھہرابھی تھا اورایسا دوبارہوا ،مگر دونوں مرتبہ میاں نوازشریف کا اندازِ سیاست ،وہ کلہاڑا بن گیا ،جس نے ہر نئی شاخ کو کاٹ پَرے کیا۔شاہد خاقان عباسی کا بطور وزیرِ اعظم کا عرصہ ،پی ایم ایل این اور ملکی سیاست کے لیے اہم موڑتھا،اگرچہ شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر ہمہ وقت یہ کہتے ہوئے پائے جاتے تھے ’’میرے وزیرِ اعظم نوازشریف ہیں‘‘ مگر اِن کا اندازِ سیاست میاں نواز شریف کی پوری طرزِ سیاست پر محیط ہو گیا۔اگرشاہد خاقان عباسی کو بطور وزیرِ اعظم کے لگ بھگ تین برس کا عرصہ مل جاتا تو نئی پی ایم ایل این کا ظہور ہوسکتا تھا۔شاہد خاقان عباسی ایک ایسے وزیرِ اعظم تھے،جو پاکستانیوں کو نظر آتے تھے،میاں نواز شریف تین مرتبہ کے ایسے وزیرِ اعظم تھے،جو پاکستانیوں کو نظر بھی نہیں آتے تھے۔عام پاکستانیوں کا معاملہ تو الگ رہا ایک طرف ،میاں نواز شریف اپنی پارٹی کے وزراء اور ایم این ایز کوبھی نظر نہیں آتے تھے۔یہ ہر بار وزیرِ اعظم بنتے ہی ایسی ٹوپی پہن لیتے ،جس کی بدولت نظر آنا بند ہوجاتے۔شاہد خاقان عباسی کی سادگی عام پاکستانی کی نمائندگی کے طورپر ،پی ایم ایل این کو نیا ظہور دے سکتی تھی ،مگر پارٹی کے فیصلہ سازوں کو اس کا ادراک نہ ہو سکا۔ ہمارے ہاں سیاسی کامیابی کے لیے محض اتنا ہی ضروری سمجھا جاتاہے کہ وزیرِ اعظم اپنی پارٹی کے وزرا ء اور ایم این ایز کی دسترس میں ہو۔میاں نوازشریف نے اپنی کرسی کے پائے اتنے اُونچے بنالیے تھے کہ ان سے مصافحہ ممکن نہیں رہا ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ لاہور میں بم دھماکا ہوا،جس میں کئی قیمتی جانیں چلی گئی تھیںاور اُس وقت کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ’’میری وزیرِ اعظم نواز شریف سے اَڑھائی ماہ سے ملاقات نہیں ہوسکی ہے‘‘ جس وقت شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم تھے،اُسی دوران ایسا ایک اور لمحہ بھی آیا ،جب پی ایم ایل این کے نئے ظہور کا سورج طلوع ہوتا دِکھائی دیا۔یہ وہ لمحہ تھا ،جب میاں نواز شریف نے زور دار انداز سے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا نعرہ بلند کیا۔اس پہلو سے انکار ممکن نہیں کہ میاں نواز شریف اور اِن کی پارٹی کی پوری سیاسی تاریخ کے پاس پہلے ایسا نعرہ نہیں رہا تھا۔مگر اُسی لمحے اس نعرہ کو جی ٹی روڈ کا نعرہ بنانے پر سارازور صَرف کیاگیا۔یہی وجہ ہے کہ یہ نعرہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے اُن حلقوں کے عوام تک نہ پہنچ پایا ،جہاں پی ایم ایل این کا ووٹرموجودتھا۔مگر میاں نواز شریف کی ذات کو ووٹرز کب عزیزرہے ہیں؟میاں نوازشریف نے یہ نعرہ تو لگادیا ،مگر نعرے کی معنویت کو نظر انداز کردیااور اس کو محض ردِعمل تک محدود کردیا۔یوں یہ ردِ عمل کا نعرہ بن گیا اور ردِ عمل کا نعرہ بھی اُس وقت تک،جب تک میاں صاحب کو جیل سے برطانیہ کی فضا میسر نہ آئی۔ جب میاں نواز شریف اپنی بیماری کی بدولت جیل سے لاہور کے ہسپتال میں منتقل ہوئے، میڈیا اور بعض حکومتی وزراء نے ڈھول پِیٹ پِیٹ کر پاکستان کے عوام کو بتایا کہ میاں نواز شریف شدید بیمار ہیں اور خدانخواستہ ان کی زندگی کو بڑا خطرہ لاحق ہو چکاہے تو بقول خواجہ محمد آصف ’’لاہورمیںہسپتال کے باہر محض سو لوگ بھی جمع نہیں ہوتے تھے‘‘ایسا کیوں؟ایسا اس لیے کہ ’’ووٹ کوعزت دو‘‘کے نعرہ کی معنویت کو ایک طرف رکھ کر اس کو ردِ عمل کا نعرہ بنایا گیاتھا۔پانامہ اسکینڈل کے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ سے میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے لیے جانے تک جہاں نئے ظہور کے دواہم مواقع کھودیے گئے ،وہاں میاں نوازشریف کی لندن سے واپسی میں تاخیر خودمیاں نوازشریف اور اِن کی جماعت کو نئے سیاسی ظہور کے ایک اورموقع سے محروم کردے گی۔’ میاں نوازشریف یہ فیصلہ کہ کب باہر جا نااورکب واپس آنا ہے؟ کرنے میںہمیشہ غلطی کرجاتے ہیں‘‘یہ غلطی ایک بارپھر دہرائی جارہی ہے۔ جولائی دوہزار اَٹھارہ سے لمحہ ٔ موجود کی وقوع پذیر ی تک عمران خان کی سیاست اس خواہش پر آن پہنچی ہے کہ ’’کاش!عمران خان کامیاب ہوجائیں‘‘میاں نوازشریف کی بلا تاخیر واپسی اس خواہش کے خاتمے کی کامیاب مساعی ٹھہر سکتی ہے۔ ورنہ دوہزار تئیس کاالیکشن جی ٹی روڈ تک محدود’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘کے بیانیہ کو بھی متاثر کردے گا۔عمران خان نے کامیابی سے عوام کو یہ یقین دلانا شروع کردیا ہے کہ نواز شریف علاج کی آڑ میں ایک طرح سے فرارہو چکے ہیں۔مگر اِن کے بعض وزراء نواز شریف کی واپسی کے جتن کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔یہ وزراء عمران خان کے نہیں ،میاں نواز شریف کے خیرخواہ معلوم پڑتے ہیں۔عمران خان وزیرِ اعظم ہائوس اور بنی گالہ کے اُجلے ماحول سے نکل کر لیّہ کی گندی گلیوں تک پہنچے،اسی طرح اِن کو ہر شہر کی گندی گلیوں تک پہنچنا ہوگا۔اگر نواز شریف واپس آگئے تو یہ وزیرِ اعظم ہائوس یا پھر بنی گالہ تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔دوسری طرف میاں نواز شریف فوری واپس نہ آکر جہاں،شاہد خاقان عباسی،احسن اقبال،خواجہ محمد آصف،خواجہ سعد رفیق کی سیاست کو بند گلی میں دھکیل دیں گے ،وہاں مریم نواز کو بھی جاتی اُمراء تک محدود کردیں گے۔رہا شہباز شریف کی سیاست کا معاملہ تو کوئی نیا موڑ اُن کی سیاست میں بھی نہیں آئے گا۔مجھے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف یہ غلطی بھی کر گزریں گے۔