دوستو! میں نے کم از کم تین دن یا پھر ایک ہفتہ کے لیے سوشل میڈیا واٹس اپ لنکڈان اور فیس بک کا استعمال بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے ایک دن میں اوسط 14ہزار پیغام وصول ہوتے ہیں۔ ان میں ای میل ذاتی موبائل میسجز اور ذاتی پیغام شامل نہیں۔ اس قدر کثیر تعداد میں آنے والے پیغامات کی وجہ سے میری نارمل زندگی کے معاملات متاثر ہوتے ہیں۔ اہم واقعات بھول جاتا ہوں سوشل میڈیا کے استعمال کا جنون نہ صرف میرا بہت سا وقت کھا جاتا ہے بلکہ یہ عادت میرے اعصاب پر اس حد تک طاری ہو گئی کہ صحت کے مسائل بھی پیدا ہونے لگے۔ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجموعی طور پر ہم اپنے وقت کا اچھا خاصا حصہ سوشل میڈیا پر صرف کر دیتے ہیں۔ ہم اردگرد اپنے اپنوں کو نظر انداز کر کے گھنٹوں دور بیٹھے لوگوں کے ساتھ آن لائن چیٹ کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے جو افراد ہماری توجہ کے مستحق ہوتے ہیں وہ نظر انداز ہوتے ہیں۔ مجھے اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ جب میں اپنا سیل فون آف کروں گا تو مجھے کچھ دشواری بھی ہو گی مجھے سوشل میڈیا کی اہمیت اور افادیت کا بھی ادراک ہے اور اس بات کا بھی احساس کہ میں سوشل میڈیا کا استعمال ترک کر کے اطلاعات کے فوری اور آسان ذریعہ سے محروم ہو جائوں گا مگر میرے لیے میری ذات ان معاملات سے زیادہ اہم ہے ۔اس لیے اگر میں آپ کے پیغامات اور فون کالز کا جواب نہ دوں تو ازراہ کرم آپ ناراض نہ ہوں۔ مجھ سے دوسرے نارمل ذرائع ابلاغ سے رابطہ بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میرے دفتر میں لینڈ لائن فون ہی موجود نہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میری زندگی کا موبائل فون پر کس قدر انحصار تھا۔ میں دوستوں کے میسجز تو دیکھ لیا کروں گا مگر کسی کو جواب نہیں دوں گا ۔مجھے امید ہے کہ آپ لوگ میری مجبوری کا احساس کرتے ہوئے اس وقت تک انتظار کریں گے جب تک میں ایک بار پھر سوشل میڈیا اور موبائل فون کا استعمال شروع نہیں کر دیتا۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ چند ماہ سے میں جو موبائل استعمال کر رہا ہوں وہ کوئی سمارٹ فون نہیں اور اس میں تین فنکشن ہیں کالز کی اور سنی جا سکتی ہیں نارمل میسجز آ جا سکتے ہیں اس کے علاوہ موبائل پر ٹائم دیکھا جا سکتا ہے۔ جب سے میسجز مفت بھیجنے کی سہولت میسر آئی ہے آن لائن کالز کی جانے لگی ہیں ہر کسی نے مجھے یاد کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ پیغامات اور کالز کے لیے کسی کو کچھ ادا جو نہیں کرنا پڑتا۔ لوگ یہاں وہاں سے نمبر حاصل کرتے ہیں اور فوراً ہی فون کرنا اور پیغامات بھیجنا شروع ہو جاتے ہیں جس کے پاس وقت ہوتا ہے وہ فون کر کے مجھ سے سیاسی معاملات پر بات کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔ مجھے ایسے ہی لوگوں سے علم ہوا کہ واٹس ایپ‘ ایمو یہاں تک کہ فیس ٹائم ابلاغ کے بہترین ذرائع ہیں کیونکہ ان کو انٹیلی جنس ادارے ٹریس نہیں کر سکتے۔ گزشتہ رات میں اچانک اٹھ بیٹھا اور سوچنے لگا کہ آخر مجھے یہ فکر ہی کیوں لاحق ہے میرا فون ٹریس کیا جا رہا ہے کہ نہیں اور پھر مجھے یہ سوچ کر پریشان ہونے کی بھی کیوں ضرورت ہے ۔اگر کوئی ادارہ میری کالز ٹریس بھی کر رہا ہے ۔ تب بھی مجھے کیا پریشانی !آخر میں پاکستانی ہوں اور مجھے اپنے وطن سے پیار بھی ہے میں ماضی میں ملک کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی میں شامل رہا نہ ہی آئندہ ایسا کرنے کی خواہش ہے تو مجھے پریشان ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے۔؟ ہفتے میں 7دن 24گھنٹے آن لائن رہنے کا عذاب مجھے یاد ہے میں رات 9بجے کا خبرنامہ سن کر پورے دن کے اہم سیاسی اور سماجی معاملات سے آگاہ ہو جایا کرتا تھا اب میں پورا دن خبریں ہی سنتا رہتا ہوں مگر اس کے باوجود بھی دن بھر کی خبروں سے کوئی نتیجہ نہیں نکال پاتاہاں البتہ یہ خبریں مجھے سارا دن مسلسل الجھائے ضروررکھتی ہیں دن بھر نیوز چینلز کے سامنے بیٹھے رہنے سے میری نجی زندگی کے تین پہلو‘ آئوٹ ڈور گیم کھیلنا‘فلمیں دیکھنا اور کتاب پڑھنا بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اب مجھے پورا دن سوشل میڈیا پر ہزاروں ویڈیوز دیکھنا پڑتی ہیں صرف ایک دن میں جتنے میسجز پڑھتا ہوں ان کے الفاظ کسی بھی اچھی کتاب سے زیادہ ہوتے ہیں مگر معلومات کی اس بھر مار کے باوجود میری زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ ہم ناگوار اور جھوٹی اطلاعات خاموشی سے قبول نہیں کر سکتے! دن بھر کی لاحاصل مشق کے بعد مجھے یہ احساس ہونا شروع ہوا شاید سوشل میڈیا کی ایجاد ورلڈ وائڈ ویب کی ایجاد کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایجاد ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی یہ ایجادہم انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے فاصلے بڑھا رہی ہے اب اگر مجھے اپنے بڑے بھائی کے گھر بھی جانا ہوتا ہے تو پہلے اس کے گھر والوں کو بتانا پڑتا ہے تاکہ وہ گھر پر موجود رہیں اس کے علاوہ وقت پر گھر پہنچنا اور مقررہ وقت پر ہی ان کے گھر سے رخصت ہونا ہوتا ہے کیونکہ انہیں اور مجھے کئی ایک دوسرے کام کرنا ہوتے ہیں۔ آج اپنے عزیز و اقارب کے گھر رات قیام کرنے کی عیاشی میسر نہیں جو ماضی میں ہوا کرتی تھی البتہ ہم گھنٹوں سوشل میڈیا پر صرف کر دیتے ہیں۔ مگر میں نے اب زندگی کو برباد کرنے اور اس روکھے پن سے نکلنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے کچن میں چار برس پہلے اس وقت ککنگ کی تھی جب میں اپنی فیملی کے ساتھ سیر کے لیے گیا تھا اور ہم لوگ ایک ہوٹل کے اپارٹمنٹ میں ٹھہرے تھے ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرے دونوں بچے میرے ساتھ کچن میں میری مدد کر رہے تھے اور پھر ہم سب نے مل کر میز پر بیٹھ کر اکٹھے کھانا کھایا تھا ۔اس کا بھی اپنا ہی مزا ہے۔چند برس پہلے میں اپنے بچوں کے ساتھ ہوٹل جایا کرتا تھا اور میرے بچے تیز مرچ مصالحوں کے باعث سوں سوں کرتے تھے۔ جس کا حل اب میں نے یہ نکالا ہے کہ اب ہم ہوٹل جانے سے گریز کرتے ہیں۔اب ہم لوگ گھر میں وقت گزارتے ہیں کھانے بناتے ہیں اور گھروالوں اور دوستوں کے ساتھ مزا کرتے ہیں بجائے اس کے کہ موبائل پر دوستوں کے ساتھ بے ہودہ لطائف کا تبادلہ کیا جائے۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ لطائف اور پیغامات خاص طور پر ہمارے لیے نہیں بھجوائے جاتے بلکہ یہ تو کٹ کاپی اور پیسٹ والا معاملہ ہوتا ہے اگر سوشل میڈیا پر بھیجے جانے والے پیغامات کی ادائیگی کرنا پڑتی تو مجھے یقین ہے کہ ہم اس قسم کے پیغامات صرف ان لوگوں کو بھیجتے جن کو ہم ضروری سمجھتے مگر اب تو لوگ ایک ہی پیغام ہزاروں لوگوں کو شیئر کر دیتے ہیں۔ ماضی میں عید کارڈ یہاں تک کہ نئے سال کی مبارکباد کے کارڈ بھیجنا بھی دلچسپ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ ہمارے میز دوستوں کے کارڈوں سے بھرے ہوتے تھے اور عید کے بعد بھی کئی روز تک یہ کارڈ ہمارے پاس موجود رہتے تھے مگر اب تو یہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ۔ میں ایک ہی دن میں ہزاروں پیغامات وصول کرتا ہوں جو کاپی کئے ہوتے ہیں جس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ اب میرے دوست کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ میرے لیے پیغام کے چند الفاظ ہی لکھ سکے۔میں نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ اب اپنے دوستوں اور عزیزوں کو کیک اور تحائف بھجوائوں گا آج ہی مجھے خیال آیا کہ میں ایسا اس لیے کر رہا ہوں کہ ان لوگوں کی میرے نزدیک خاص اہمیت ہو گی میں آج مخمصے کا شکار ہوں اور فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں۔ مجھے نہیں یاد کہ میں آخری بار کب اپنے کسی دوست کے ہاں چائے پینے گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم اپنے گھر پر دوستوں عزیزوں کو مدعو کیا کرتے تھے اور یہ معاشرہ میں ایک اچھی روایت تھی آج ہم اپنے دوستوں اور عزیز رشتہ داروں کو وہ اہمیت نہیں دے پاتے مختلف قسم کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں آج میں خود سے شرمسار ہوں۔ گزشتہ عید کے موقع پر مجھے 22ہزار مبارکبادی پیغامات آئے جن کا آغاز چاند رات کے پیغامات سے ہی ہو گیا تھا ان میں سے شاید ہی چند پیغامات ہوں گے جن کو بھیجنے والے افراد نے یہ پیغامات میرے لیے لکھے ہوں ۔میں نے اس روز ہزاروں پیغامات ایسے بھی پڑھے جن کو درجنوں افرادنے فارورڈ کر دیا تھا جس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا قیمتی وقت جومجھے زندگی میں دوبارہ نہیں ملنے والا ان پیغامات کو پڑھنے میں برباد کر دیا؟ جن کو میں پڑھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔اب میں پاکستانی یا بھارتی فلمیں بھی نہیں دیکھ پاتا اگر دیکھنا چاہوں بھی تو فلم کو مختلف اوقات میں قسطوں میں دیکھنا پڑتا ہے۔ یو ٹیوب اور فیس بک کے ہوتے ہوئے اتنا وقت ہی کب بچتا ہے کہ میں 3گھنٹے بغیر کسی مداخلت کے کوئی فلم دیکھ سکو ںاور اس سب کچھ کی وجہ میرا سمارٹ فون ہے جو میں ساتھ اٹھائے گھومتا ہوں ۔