میری زندگی کا ایک بھی لمحہ ایسا نہیں جسے میں بھول گیا ہوں یاجسے میں نے اسے فراموش کر دیا ہو، کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جو میرے ساتھ جڑا ہو اور میری یادداشت سے محو ہوگیا ہو، شکلوں اور شکوئوں،اور محبتوں اور سوچوں سے لبریز میرا دماغ بوجھل ہوجانے کے باوجود اپنا وزن ہلکا کرنے کو تیار نہیں، میں میرا دل اور میرا دماغ علیحدہ علیحدہ سمتوں پر گامزن رہتے ہیں،ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں کوئی بھی حصہ دوسرے کی حاکمیت قبول کرنے کو تیار نہیں، تینوں کے مابین کشمکش ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں گھر سے آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا، قمیض کے بعد پتلون پہننے لگا تو وہ مجھے فٹ نہیں آ رہی تھی، کمر کا فرق ایک آدھ کا نہیں پورے چھ انچ کا تھا، حیران تھا کہ ایک ہی رات میں پیٹ آدھ فٹ پھیل کیسے گیا؟ پتلون کو ہاتھ میں تھامے بہت زور سے اوپری بٹن بند کرنے کیلئے کوشاں تھا کہ پتہ چلا کہ پتلون تو میں پہلے ہی پہن چکا ہوں اب پتلون کے اوپر دوسری پتلون چڑھا رہا ہوں، کمرے میں اکیلا ہی تھا بجائے اپنی غیر حاضر دماغی اور حماقت پر شرمندہ ہونے کے میں نے پتلون کے اوپر پتلون پہن ہی لی، پھر جائزہ لیا کہ کہیں نیچے والی پتلون کا کسی کو پتہ تو نہیں چلے گا؟ جب اچھی طرح تسلی کر لی تو آفس پہنچ کیا، وہاں سب کام معمول کے مطابق کئے ،بس تھوڑی سی الجھن اس وقت ہوئی جب میں دو منٹ کیلئے واش روم میں گیا۔۔۔ یہ تو بتائی میں نے اپنی ایک واردات، صحافت کے اس میدان میں اس طرح کا میں کوئی اکیلا آدمی نہیں ہوں، مجھ سے بھی کئی کئی ہاتھ آگے سرخیل بیٹھے ہوئے ہیں جو دو پتلونیں پہن کر عوام اور پاکستان کے مستقبل کا تعین کرتے رہتے ہیں، نجومی صحافی کئی لال بجھکڑوں کے ان گنت افسانے ہیں میرے پاس، ایک صحافی تو ملک اور قوم کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوگیا تھا کہ وہ ایک دن قمیض کے نیچے صرف انڈر وئیر پہن کر قوم کو لیکچر دینے آگیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ جب میں رات گئے بستر پر لیٹا نیند کی تلاش میں ہوتا ہوں میرا دماغ میرے وجود سے نکل کر میرے قریب پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھا کسی کتاب کے بغیر مطالعہ میں مصروف ہوجا تا ہے، بہت جتن کرتا ہوں کہ دماغ اپنی جگہ واپس آئے اور میں دو چار گھنٹے نیند پوری کر سکوں، مگر حرام ہے کہ وہ میری ایک بھی سنے، یہ سب کچھ نیا نیا شروع نہیں ہوا، میرے ساتھ تو یہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے، پہلے سوچا کرتا تھا کہ یہ سبھی کے ساتھ ہوتا ہوگا لیکن کئی مخصوص صحافی دوستوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بستر پر دراز ہوتے ہی نیند کی گہری وادیوں میں پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے صبح جلدی جاگنا ہوتا ہے، اپنے کالموں اور پروگراموں کی داد پانے کیلئے بہت سارے لوگوں سے ملنا ہوتا ہے ، فیڈ بیک لینا ہوتا ہے، اور اگلے دن کیلئے مشاورت بھی کرنا ہوتی ہے، کالم لکھنا اور سیاسی پروگراموں میں سر کھپانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، آپ آج کے اخبار پڑھیں نہ پڑھیں، حالات حاضرہ کے ملکی غیر ملکی پروگرام سنیں نہ سنیں، ان لوگوں سے روز ملنا زیادہ اہم ہوتا ہے جن کے حق میں آپ کو چینلز پر بیٹھ کر اپنی دانشوری کا اظہار کرنا ہوتا ہے، کئی دوست ایسے بھی ہیں جنہیں روز کے روز وصولیاں کرنے بھی جانا ہوتا ہے، داد و تحسین کی وصولیاں،،، ایک اور الٹی بات بھی ہوتی ہے میرے ساتھ، میں لمبے چوڑے خواب بھی دیکھتا ہوں اور جب خواب مکمل ہوجاتا ہے تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں تو جاگ رہا تھا پھر یہ خواب کیسے دیکھ لیا، اپنی اس کیفیت کا میں نے کبھی بھی کسی سیانے سے تذکرہ نہیں کیا، آپ کو محض اس لئے بتا رہا ہوں کہ جانتا ہوں کہ میرے جیسے سبھی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ہم جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے صحافیوں کے سرخیل جو ٹھہرے، نواز شریف کے حق میں قصیدے لکھ کر انہیں کالم کا نام دینے والے کالم نگار کو گلہ ہے نواز شریف کو کبھی ایک اشارے پر ان کے دفتر میں بھی آجایا کرتے تھے اب ان سے ملاقات پر بھی تیار نہیں، اس کا ذمہ دار انہوں نے ن لیگ کی ترجمان اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کو ٹھہرایا ہے، اور تو اور انہوں نے اسے جھوٹی کا خطاب دیدیا ہے، چھہتر سالہ کالم نگار کو جیل جانے کا خدشہ ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کوئی صحافی یا سرکاری درباری دانشور ان کی جگہ جیل نہیں کاٹے گا جنہیں انہوں نے بڑی بڑی رقوم سے نوازا تھا۔ ٭٭٭٭٭ ستر کی دہائی میں پہلی بار کراچی گیا تو ابا جی نے اپنے تین دوستوں کے نام خطوط دیے ، ایک تھے اداکار کمال، دوسرے حمید کاشمیری اور تیسرے ابراہیم جلیس، کمال صاحب کے دروازے تک تو پہنچ گیا، لیکن دستک دیے بغیر واپس چلا آیا، ان دنوں کمال صاحب PECHS میں نرسری کے قریب اپنے آبائی مکان میں رہا کرتے تھے،گھر کی باہر سے شان و شوکت دیکھی تو دل نہ مانا کہ دستک دوں، مجھے بڑے گھراور بڑے گھروں کے مکینوں سے ہمیشہ کھٹکا رہا ہے، پتہ نہیں کیوں؟، میرا ہمیشہ سے خیال رہا ہے کہ تعلق صرف ان لوگوں سے رکھنا چاہیے جن کے ساتھ آپ برابری کی سطح پر بیٹھ سکیں، گفتگو کر سکیں، یہ تو مجھے ایک عرصے بعد پتہ چلا کہ کمال صاحب ایک انتہائی سادہ اور نفیس آدمی ہیں۔اس کے بعد ایک دن میں حمید کاشمیری صاحب کو صدر کراچی میں ڈھونڈھ رہا تھا، حمید کاشمیری کا نام اردو ادب میں بہت نمایاں نام ہے،ان دنوں مرحوم ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے بھی لکھ رہے تھے جو عوام میں مقبول تھے، وہ ملے شد ید گرم دھوپ میں فٹ پاتھ پر لگے ایک ٹھیلے پر کھڑے ہوئے، جس پر درجنوں کتابیں سجی تھیں، یہ ٹھیلا وہ خود چلاتے اور یہی اب کا بنیادی روزگار تھا، مجھے وہ بہت تپاک سے ملے،ہاشمی صاحب کا خط پڑھ کر بہت نہال ہوئے، ٹھیلے کو اللہ کے سپرد کرکے وہ مجھے ایک قریبی ریسٹورنٹ لے گئے اور کھانا کھلایا، میں جب تک کراچی میں رہا حمید کاشمیری صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اب ایک ملاقات باقی تھی، ابراہیم جلیس صاحب سے،وہ ان دنوں پی آئی بی کالونی میں رہ رہے تھے، کنبہ بڑاتھا اور گھر چھوٹا ، ایک نامور کالمسٹ کو اس خستہ حالی میں دیکھ کر مجھے صدمہ نہ ہوا، بلکہ میرے دل میں ان کی توقیر بڑھ گئی، تین سال بعد مساوات میں ملازمت کے لئے دوبارہ کراچی گیا تو سب سے پہلے ابراہیم جلیس صاحب کو ڈھونڈا، وہ ان دنوں بندر روڈ پر کرائے کے ایک چھوٹے سے آفس سے ہفت روزہ عوامی عدالت نکالا کرتے تھے، سب کچھ وہ اکیلے ہی کیا کرتے تھے سوائے کتابت کے، مالی حالت بہت ہی مخدوش تھی، ہرہفتے رسالہ نکال لینا کوئی آسان کام نہ تھا، میں مساوات کے آفس ڈیوٹی پر ہوتا تو اکثر ان کا فون آجاتا، وہ کتابت اور کاپی پیسٹنگ کے لئے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں بتاتے جو میں خود جا کر انہیں دے آتا، طنزیہ کالم لکھنے کا جو ہنر ان کے ہاتھ میں تھا اور کسی کو نصیب نہیں ہوا، وہ صرف اور صرف عام آدمی کے لئے لکھتے ،وہ طبقاتی معاشرے میں مساوات کے خواہاں تھے، برے سے برے حالات میں بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ رقصاں رہتی اور اس مسکراہٹ کو ہر چہرے پر دیکھنا چاہتے تھے، آج آپ کو سیاسی جماعتوں اور ایجنسیوں کے نمائندہ کالمسٹ تو کثرت سے مل جائیں گے، ابراہیم جلیس جیسا شاید ایک بھی نہ ملے۔ 1978ء میں ابراہیم جلیس کراچی میں مساوات کے ایڈیٹر بنادیے گئے، یہ منصب انہیں اس وقت ملا جب مساوات کو جنرل ضیاء الحق نے بندوق کی نوک پر یرغمال بنا رکھا تھا، اس ادارے کے صحافی اور کارکن ایک طرف تو آزادی صحافت اور تحفظ روزگار کی جنگ لڑ رہے تھے اور دوسری جانب ان کے گھروں میں فاقے تھے، مکانوں کے کرائے اور بچوں کی فیسیں تک ادا نہیں ہو رہیں تھیں، انہی حالات میں ابراہیم جلیس کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ ہمیں چھوڑ گئے، ان کی موت پر میں نے ایک نوحہ لکھا،عنوان تھا مسکراہٹ کی موت۔