حالات اتنے بگڑتے جا رہے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ توجہ کسی اور طرف مبذول کر لی جائے۔ ڈنمارک کی ریاست میں سب کچھ گلا سڑا ہے۔ وطن عزیز میں کیا ہونے والا ہے‘ یہ تو تب سوچوں جب اس بات پر مطمئن ہوں کہ جو ہو گیا وہ کم از کم اطمینان بخش ہے۔ اب تک کیا کچھ نہیں ہو چکا۔ سب لٹ چکا۔ بری طرح لٹ چکا ہے۔ ایسے میں مزاحمتی تحریک بھی صد ہا سوال پیدا کر رہی ہے۔ اس میں آرمی چیف کا کہنا کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں کہ آئین ہمیں یہی بتاتا ہے۔ یہ مرحلہ ماضی میں بھی آتا رہا ہے ۔ اس بار مگر سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب فلاح کی ہر امید دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ذرا سانس میں سانس آ جائے تو کچھ عرض کروں۔فی الحال مرے اس بیانیے ہی سے اندازہ لگائیے کہ میں کس قدر تشویش میں مبتلا ہوں۔ اس لئے موضوع بدلتے ہیں ۔اوریا مقبول جان نے تین کالم لگاتار بنگلہ دیش پر لکھے ہیں۔ ہم روز سنتے ہیں بنگلہ دیش کہاں کا کہاں جا پہنچا مگر ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ ایسے اعداد و شمار درست بھی ہوتے ہیں‘ مگر بعض اوقات صرف ہمارے اعصاب شل کرنے کے لئے پھیلائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر بھارت کے بارے میں بڑا چرچا ہے کہ اس میں دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس ہے۔ کوئی چالیس کروڑ ۔یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہاں دنیا کی سب سے بڑی غریبوں کی آبادی بھی ہے۔ یہی کوئی اسی ہزار۔یہ صرف چین کا ماڈل ہے جس نے کروڑوں لوگوں کو حدغربت سے نکال باہر کیا۔ بھارت اپنی معاشی ترقی کے باوجود یہ معجزہ نہ دکھا سکا۔اس کی نصف سے زیادہ آبادی آج بھی ٹائلٹ کی سہولتوں سے محروم ہے۔تاہم اس وقت مجھے بنگلہ دیش کے بارے میں ایک بات عرض کرنا ہے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان سے محبت کا جذبہ ایسا تھا کہ جب ڈھاکہ میں چند ہی برس بعد کرکٹ اور ہاکی کا میچ ہوا تو دنیا ششدر رہ گئی۔ انڈین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یوں لگتا تھا ہم دشمن کے درمیان کھیل رہے تھے اور پاکستان اپنے ہوم گرائونڈ پر تھا۔ دنیا بھر کے تجزیہ نگار حیران تھے کہ یہ اسی شہر کا گرائونڈ ہے جہاں پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے تھے۔کئی برس تک بنگلہ دیش سے ایسے اشارے ملتے رہے کہ وہاں کے شہروں ہی میں نہیں، دیہاتوں تک میں لوگوں کے دل پاکستان کی محبت میں دھڑکتے ہیں۔ پھر بین الاقوامی قوتوں کے دلوں میں ہول اٹھا اور انہوں نے ایک ایجنڈے کے تحت ڈھاکہ ماڈل کی بنیاد رکھی۔حسینہ واجد کو بھی اپنے من کی آگ ٹھنڈا کرنا تھی اور بھارت کو بھی اس سرزمین کا مزید استحصال کرنا تھا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔کون کون سر دار لٹکا دیا گیا اور عالمی ادارے اس کا تماشا دیکھتے رہے۔ خیر میں بات اعداد و شمار کی کر رہا تھا۔ انڈونیشیا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی۔ پاکستان کا ایک بڑا مضبوط وفد یہاں موجود تھا۔ بنگلہ دیش کے لوگ درمیان میں منظم سازش کرتے جا رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے پاک فوج کی صلاحیتوں کے بارے میں ایک بات کی‘ میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ پروگرام کی منتظم جو ناروے سے تھی ،پوچھ بیٹھی کہ بائی دا وے، اس سوال کا کیا جواب ہے۔ جواب میں انہیں مرا شدید غصہ ہی ملا جس میں چیلنج بھی تھا۔ تاہم کانفرنس کی بدلنے کے لئے اس بنگلہ دیشی لڑکی نے ذرا ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دی۔ اس کا کہنا تھا جب بنگلہ دیش تقسیم ہوا تو بنگلہ دیش میں 19فیصد ہندو تھے جبکہ اب وہ غالباً 5.6فیصد ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ وہ تو تلاش کرتی رہی‘ مگر میں نے ایک جواب جڑ دیا اور بعد میں اس پر غور بھی کرتا رہا۔بنگلہ دیش میں ہندو مشرقی پاکستان کے زمانے میں بھی 5.6فیصد تھے مگر انہیں 19فیصد ظاہر کیا جاتا تھا یہ ہو سکتا کہ کچھ لوگ کلکتہ سے آتے جاتے رہتے ہوں مگر ان کا اصل مسکن کلکتہ ہی تھا۔ الیکشن میں ان کے ووٹ ہوتے تھے۔ جب بنگلہ دیش بن گیا تو اس کی ضرورت نہ رہی۔ میں یہ بھی سوچنے لگا کہ اس طرح بنگلہ دیش کی آبادی کو کم از کم بارہ تیرہ فیصد زیادہ ظاہر کیا جاتا،مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کا اس طرح جو فرق پیدا ہوتا اس سے کئی مسائل نے جنم لیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں کی آبادی میں اضافے کی شرح بھی یکایک کم ہو گئی۔وہاں خاندانی منصوبہ بندی کے جو ماڈل بتائے جاتے ہیں ان میں کوئی اس کی تائید نہیں کرتا کہ یہاں کی آبادی میں اضافہ اچانک اتنا ہو گیا کہ یہاں کی مجموعی آبادی مغربی پاکستان سے کم ہو گئی۔ میں نے اس پر جم کر تحقیق نہیں کی کہ یہ مرا تخصص نہیں ہے۔ تاہم میں اس دن سے شک میں مبتلا ہو گیا کہ یقینا کوئی کھیل کھیلا گیا۔ آج ہمارے ہاں کراچی اور سندھ کی آبادی کا جھگڑا چلا ہوا ہے۔اس جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تو پورے ملک میں ایک نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہو گا۔ ہو سکتا ہے پنجاب سوچے ہماری آبادی کیوں کم کی جا رہی ہے۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں۔ ساتویں عشرے کے شروع میں جو مردم شماری ہوئی تھی تو اس میں مجھے یاد ہے کہ نوابشاہ (وزیر اعلیٰ جتوئی کا شہر) اور لاڑکانہ (وزیر اعظم بھٹو کا شہر) کی آبادی کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ اعداد و شمار بھی اوقات بڑا جھوٹ بول جاتے ہیں۔ میں بنگلہ دیش کی ترقی کا پول کھولنے کے لئے یہ سطورو نہیں لکھ رہا۔ اسے اہمیت دینا اس لئے ضروری تھا کہ وہ ایشیا کے اس خطے میں ہے جہاں اہل مغرب ٹائیگر پیدا کر رہے ہیں اور ہم اس جغرافیائی اہمیت کے علاقے میں بھی جہاں زیادہ سے زیادہ صارفین کا معاشرہ(مشرق وسطیٰ) پیدا کیا جا سکتا ہے چاہے وسائل بے پناہ ہوں۔ باقی سمتوں کا جائزہ لیں تو ہم وارزون میں ہیں یا ایک ایسے تزویراتی خطے میں ہیں جہاں کی ضروریات ہی مختلف ہیں۔ یہ ایک الگ نکتہ ہے کہ بعض ممالک کی ترقی یا حکمرانی کا ماڈل وہاں کی قیادت کا مرہون منت ہے یا کسی عالمی ایجنڈے کا شاخسانہ ہے۔ اس وقت ہمارے ساتھ بھی جو ہو رہا ہے‘ اس کی ذمہ دار ہم خود ہیں‘ مگر اس سے زیادہ ذرا سوچو تو سہی‘کہیں یہ کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ نہ ہو۔ ذرا سوچیں تو۔ اس سے آگے پر جلتے ہیں اور میں پہلے ہی بہت سے پر جلا چکا ہوں۔