گزشتہ کئی دہائیوں سے اس قوم کے زوال پرلکھنے والے اپنی تحریروں کا عمومی عنوان یہ رکھتے تھے کہ ’’ہم کہاں جارہے ہیں‘‘۔ ایسی تحریروں میں اخلاقی زوال، خاندانی روایات کے خاتمے، اور معاشرتی بے حسی کا تذکرہ ہوتا تھا۔ لیکن میں آج انتہائی دکھ ، کرب اور اذیت کے ساتھ یہ حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ ہم بحیثیت قوم اپنے زوال کی طرف خود نہیں جارہے بلکہ ہمیں اس جہنم کی طرف زبردستی گھسیٹا جارہا ہے۔ اس اخلاقی زوال اور بدترین جنسی غلاظت کے گڑھے میں دھکیلنے کے ذمہ دار دو اہم گروہ ہیں، کار پردازانِ نظام تعلیم اور میڈیا اور ان دونوں کی سرپرستی وہ سیاسی اشرافیہ کرتی ہے جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف سیاسی اور دنیاوی کامیابی ہے ۔ میڈیا ایک خاص ایجنڈے کے تحت مغربی جنسی اختلاط اپنے ڈراموں اور نیم فحش تفریحی پروگراموں کے ذریعے پھیلاتا ہے، جس کے نتیجے میں جب معاشرے میں آزادی اور بے راہ روی کا چلن عام ہوتا ہے تو پھراس کا تحفظ نیوز چینلز کے اینکرز اپنے پروگراموں کے ذریعے کرتے ہیں۔میڈیا کی چھتری اوڑھے سیکولر، لبرل تہذیب کے پرچم بردار کالم نگاری کرتے اور دانشوری بھگارتے ہیں۔ ایسے مرنجا مرنج ماحول میں، این جی اوز کی تخلیق کردہ سول سوسائٹی کی فیشن زدہ خواتین اور تہذیب باختہ مرد، گنتی کے چند افراد پر مشتمل یہ ٹولہ پلے کارڈ اٹھا کر، موم بتیاں روشن کرکے احتجاج کرتا مختلف دن مناتا ہے اوریوںایک مستقل چکر چلنے لگتا ہے۔ چند درجن سول سوسائٹی والوں کے اس احتجاج کو سارا دن خبروں میں ’’اہم ترین‘‘ خبر بنا کردکھایا جاتا ہے، شام کو اینکرز اس پر تبصرے کے لیئے سیاست دانوں کو مدعو کرتے ہیں، جو اس بلیک میلر ’’میڈیا مافیا‘‘کے خوف اور عالمی ایجنڈے کے دباؤ میں اپنی سیاسی ساکھ کے تحفظ کے لیئے اس سارے اخلاقی زوال میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس سارے گھن چکر کا پہلا اہم ہدف نظامِ تعلیم ہوتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ہمارا ’’نظامِ تعلیم‘‘ فرسودہ، بیکار اور متعصب ہے۔ اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔ مذہبی رواداری، مناسب جنسی تعلیم اورصنفی تفاوت کے خاتمے جیسے الفاظ اور اصلاحات کا چرچا کیا جاتا ہے ۔ان سب کی آڑ میں یہ تینوں طبقات مل کر گزشتہ تیس سالوں سے جو اس ملک کی اخلاقیات کے ساتھ کھیل کھیل رہے تھے، آج اس کے خوفناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ یہ ایک خوفناک سی سی ٹی وی کی فوٹیج ہے جس میں لاہور کے ایک ہسپتال کے باہر ایک گاڑی کھڑی ہوتی ہے، اس میں سے ایک لڑکا ایک لڑکی کو ہاتھوں میں اٹھائے ایمرجنسی میں داخل ہوتا ہے اور پھر اس لڑکی کو جو دم توڑ چکی ہے وارڈ کے سٹریچر نما بستر پر چھوڑ کر فرار ہوجاتا ہے۔ یہ سترہ سالہ مریم فاطمہ لاہور کے ایک کالج میں گجرات سے پڑھنے آئی تھی، جہاں اس کے تعلقات اپنے کلاس فیلو کے ساتھ استوار ہوئے، جو اس حد تک بڑھے کہ وہ حاملہ ہوگئی۔ اس کا دوست اسے اسقاطِ حمل کے لیئے ایک دور دراز ہسپتال میں لے گیا، جہاں اس کی حالت خراب ہوئی تو اسے لاہور کی طرف لایا جارہا تھا کہ وہ راستے میں دم توڑ گئی اور لڑکا اس کی لاش کو ہسپتال کے بستر پر چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ یونیورسٹی میں داخلے، مخلوط جنسی تعلیم میں جدید اخلاقی اقدار کی چکاچوند میں ’’بوائے فرینڈ‘‘ سے تعلق،پھر جسمانی تعلق اوراس کے نتیجے میں حمل اوراسقاطِ حمل تک کا سارا سفر پاکستانی میڈیا کے ’’عظیم اور جدید‘‘ سیکولر، لبرل دانشوروں کے نزدیک ایک خوش کن’’رومانی‘‘ سفر ہے، جس کا انجام رومانی ٹریجڈی ہے۔ان کے نزدیک یہ تعلق اوّل سے آخر تک کوئی جرم نہیں، بلکہ انسانی جبلی جذباتی خواہشات کا آئینہ دار ہے۔ یہ تصور ’’جدیدمغرب‘‘ سے مستعار لیا گیا ہے کیونکہ وہاں بھی اگر کوئی بوائے فرینڈ یا خاوند اپنی سابقہ یا موجودہ گرل فرینڈیا بیوی کو اس رومانی سفر میں قتل کر دے تو اسے ’’کاروکاری‘‘ نما لفظ سے بدنام نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ایک اعلیٰ ’’رومانی‘‘ مقام عطا کرنے کے لیے "Crime of Passion" یعنی جذبات کے تحت کیا گیا جرم کہا جاتا ہے۔ اس ’’خوبصورت‘‘ جرم کے دفاع کے لیئے بے شمار اصطلاحات وضع کی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایسا جرم کرنے والا شخص ’’عارضی پاگل پن‘‘ (Temporory Insanity) کا شکار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے میں قتل ہونے والی لڑکی یا لڑکے کاقتل ’’قتل عمد‘‘ (Premeditated) یعنی ایک منصوبے سے کیا جانے والا قتل نہیںہوتا، بلکہ یہ جذباتی اورفوری غصیلے لمحوں کی بھول تصور ہوگا۔ اسلام کے اصولوں کے مطابق اگرہسپتال میں اس ’’سترہ سالہ‘‘ نابالغ لڑکی کی لاش چھوڑ کر جانے والے لڑکے کے ساتھ اس کے تعلقات دیکھ کر والدین انہیں ’’زنا‘‘ کی اخلاقی برائی سے بچانے کیلئے کسی مولوی کو بلاتے اور ان کا نکاح منعقدکر رہے ہوتے تو پاکستان کا یہی میڈیا صبح سے لیکر شام تک اسے خبروں کی زینت بناتا، پولیس کی ٹیمیں ان کے پیچھے ہوتیں، ماں باپ کو گرفتار کر لیا جاتا، لڑکی کواس ’’ظلم‘‘ سے بچا کر بازیاب کرالیا جاتا اور شام کو اینکرز اپنے پروگراموں میں ’’نوجوانی کی شادی‘‘ کے نقصانات پرگفتگوفرماتے، نفسیات دان کم عمری کی شادی کو ذہنی جذباتی ہیجان بتاتے، امراضِ نسواں کی ماہر لیڈی ڈاکٹر کم عمری کی شادی کو جسمانی صحت کے لیئے بہت بڑاخطرہ قرار دیتیں اور اگلے دن میرے ملک کا مغرب زدہ سیکولر اخلاقیات کا حامل کالم نگار اور دانشور طبقہ لمبے لمبے مضمون لکھتا اور بتاتا کہ دراصل ایسے واقعات کا حل شادی نہیںہے، بلکہ بچوںکو سکول میںمحفوظ ’’جنسی تعلقات‘‘ (Safe Sex)کی تعلیم دینا ہے۔یہ دانشور زور دیتے کہ بچوں اور بچیوں کو سکول میں ہی ایسے ناگہانی معاملات سے نپٹنے کی تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے۔ میڈیا، نظامِ تعلیم کے ماہرین اور سیاسی قیادت کی مہربانی سے آج ایسا نصابِ تعلیم ممکن ہوچکا ہے۔ میڈیا پر چھائے ہوئے طبقات اس قدر بے حس ہیںکہ گزشتہ سال ،لاہور کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادار ے میں جو صرف بچیوں کے لیئے مخصوص تھا، وہاں ایک مرد استاد اپنی شاگردوں کو بلیک میل کرتے ہوئے پکڑا گیااور بچیوں نے کمال جرات کر کے اس کے بارے میں سب کچھ بتایا۔اس گھناؤنے جرم کے بعد سکول انتظامیہ نے لڑکیوںکے کیمپس میں مرد استادوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا، کیونکہ والدین نے اپنی بچیاں اسی شرط پر وہاں بھیجی تھیں کہ وہ صرف لڑکیوں کا کیمپس ہی ہوگا ۔ایسا حکم جاری ہواتو میڈیا کی بے شرمی اور ڈھٹائی کا یہ عالم تھاکہ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر کچھ اینکرز باقاعدہ غصے میں بپھر گئے اور بولے بھلا یہ بھی کوئی حل ہے کہ مرد استاد کا داخلہ بند کردو۔یہ لوگ ہمیں جہالت کے اندھیروں میں لے جارہے ہیں۔ ہمارا عالم یہ ہے کہ والدین نے ایک انجانے خوف اور پشیمانی میں چپ سادھ رکھی ہے اور سیاسی قیادت اپنی صفوں میں موجودسیکولر، لبرل شدت پسند جتھوں کے خوف سے چپ ہے۔ یہ سیکولر لبرل شدت پسند جتھے مختلف ناموں سے آج ہمارے معاشرے کے ان تین طبقات یعنی میڈیا، نظامِ تعلیم اور سیاسی اشرافیہ پر غالب ہیں۔ اس شدت پسند دہشتگرد جتھے کے خلاف جب بھی کوئی زبان کھولتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمیں اپنی اخلاقی اقدار کا تحفظ کرناچاہیے ،تو یہ جتھہ اسے مذہبی دہشت گرد، اسلامی شدت پسند اور تخریب کار بنا کر دنیا بھر کے ممالک میںاپنے ساتھیوں کے ذریعے بدنام کرتے ہیں۔ اس سیکولر دہشت پسند گروہ کی پشت پرپورا مغرب ایسے کھڑا ہے جیسے مکّہ کے مشرکین کی پشت پر ابوجہل کھڑا تھا۔ آپ ایک باران کے خلاف آواز بلند کرکے دیکھیں یورپ اور امریکہ میںآپ کا نام گالی بنا دیا جائے گا۔ آپ کا داخلہ ان ملکوں میں بند ہوجائے گا۔ آپ کے بارے میں اسقدربے بنیاد جھوٹ پھیلایا جائے گاکہ آپ کا تصور ہی دل دہلا دینے والا بن جائے۔ مجھ سے زیادہ کون اس گھناؤنے فعل کو جانتا ہوگا کہ میں نے تو گذشتہ پانچ سالوں سے اس سب کو بھگتا ہے۔ (جاری)