سنتے آئے ہیں کہ جب کسی روز دنیا اچھی نہ لگے تو کسی بچے کو آئس کریم کھاتے ہوئے دیکھ لیں۔ مگر ایک ایسی دنیا میں ہم کیا کریں جہاں وبا کا موسم پھیل چکا ہو اور بچوں کو آئس کریم کھانے سے احتیاطی تدبیر کے طور پر روک دیا گیا ہو۔! وبا کے اس موسم میں جب بچوں کے سکول جانے پارکوں میں کھیلنے اور نانا‘ نانی ۔ دادا داری سے گلے مل کر پیار لینے پر بھی پابندی ہو‘ وہاں یہ معصوم پھولوں جیسے بچے کیا سوچتے ہیں۔ بچوں کے مسکرانے ‘ ہمکنے اور کھلکھلانے سے زندگی میں رنگ بھرتے ہیں ان کی تازہ کار باتوں سے سال خوردہ یکسانیت بھری زندگی بھی نئی نئی سی لگنے لگتی ہے تو چلئے پھر آج دنیا کو ہم بچوں کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سی جے ہیک ایک امریکی شاعرہ افسانہ نگار اور بلاگر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ خدا کرے تم دنیا کو ہمیشہ ایک بچے کی نظر سے دیکھو بچے جو حیرانی اور بھر پور خوشی سے ہمہ وقت لبریز ہوتے ہیں۔ جب سے سکول سے کورونا وائرس کی وجہ سے چھٹیاں ہوئیں‘ دانیال صاحب آغاز میں بہت خوش تھے کہ شاید ان کی موسم بہار کی تعطیلات شروع ہو گئیں ہیں اور اب وہ ان چھٹیوں میں خوب مزے کریں گے۔ دانیال کی ٹوڈو(todo) لسٹ ہمیشہ بہت طویل ہوتی ہے اور بقول ان کے سکول جانے کی وجہ سے بہت سے پراجیکٹ ادھورے رہ جاتے ہیں۔ سو چھٹیوں میں ان کو مکمل کریں گے۔ ان کا خیال تھا کہ چھٹیاں ہوتے ہی وہ اپنی دادو اور چاچو سے ملنے اسلام آباد جائیں گے۔ پھر وہاں سے ٹیکسلا کا رخ کریں گے‘ خالہ کی محبت سمیٹیں گے اور بھائی سے کراٹے کے نئے دائو پیچ سیکھیں گے۔ پھر سرفراز ماموں سے ملنے پشاور جائیں گے وہ اس نئے شہر کو ایکسپلور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شاہین اور یحییٰ سے کھیلیں گے۔ مگر یہ کیا چھٹیاں ہوتے ہی سخت قسم کے احکامات صادر ہو گئے کہ شہر سے باہر تو کیا۔ گھر سے بھی باہر نکلنے کی ممانعت ہے۔ اب نہ پلے لینڈ جا سکتے ہیں،نہ ہی چڑیا گھر جا کر پونی کی سیر کر سکتے ہیں۔ روزانہ شام کو گھومنے پھرنے پے پابندی کھلونوں کی دکانیں بند ہیں۔ لیگو (lego)کولیکشن کیسے کریں۔ پارک میں سائیکل کیسے چلائیں۔ فٹ بال کیسے کھیلیں۔ اتنی پابندی کہ آئس کریم کھانابھی منع ہے۔ یہ کیسی بورنگ زندگی ہو گئی ہے۔ دانیال صاحب کورونا وائرس کے بارے میں کافی تھیوریز پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کورونا وائرس اس لئے آیا کہ ٹیکنالوجی نے انسان کی سول (soul)کو کرپٹ کر دیا ہے(معذرت خواہ ہوں اردو میں انگریزی کی اس قدر ملاوٹ کرنے پر مگر کیا کریں ہمارے بچوں کی زبان اب ایسی ہی ملاوٹ زدہ ہے) تو پھر اس کا علاج بھی بتائیں ہم نے سوال کیا تو کچھ غور و غوض کے بعد بولے۔ انسان کو نیچر سے رابطہ بڑھانا پڑے گا۔ درختوں سے پودوں سے پرندوں سے چیونٹیوں سے بھی۔ ایک روز دانیال صاحب کہنے لگے کہ کورونا وائرس صرف ایک خوف(fear)ہے۔ اس کو شکست دینا چاہیے۔ہم جتنا زیادہ خوف زدہ ہوں گے یہ کورونا اتنا زیادہ پاور فل ہوگا۔ اس لئے اگر ہم ڈرنا چھوڑ دیں گے تو یہ ویک weakہو جائے گا۔ ایک دن صاحبزادے کہنے لگے کہ مجھے یوں لگتا کہ اللہ میاں ہم سے treasure hunt gameکھیل رہے ہیں۔ ہمیں اس خزانے کو ڈھونڈنا ہو گا۔ ضرور اس اندھیری رات کے بعد روشنی ہے(یاد رہے کہ رات دس بجے آسمان کو دیکھتے ہوئے یہ ارشادات فرمائے گئے) ہمارے بھتیجے ہیں چھ سالہ محمد ابراہیم‘ کہتے ہیں کہ میں نے نئے سکول میں جانا تھا تو یہ کورونا آ گیا اور اب سارے سکول بند ہو گئے ہیں۔ کورونا نے مجھے نئے سکول میں جانے نہیں دیا‘ کب جائے گا یہ یہاں سے؟ یہ ابراہیم کا سوال ہے۔ ان کے بڑے بھائی محمد سالار جو ایک سنجیدہ قسم کے بچے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ جو سیاستدان آپس میں لڑتے رہتے ہیں ان کی وجہ سے کورونا پھیلا ہے اور اب غریب لوگوں کو کھانا بھی نہیں مل رہا ہے اللہ میاں ہم سے ناراض ہیں اس لئے ان کو منانا بہت ضروری ہے۔ بس اسی خیال سے ساڑھے دس سالہ محمد سالار نمازوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت دعا کرتے ہیں کہ جلد سے جلد یہ کورونا وائرس ختم ہو جائے تاکہ پھر ہم دانیال کے گھر بھی جا سکیں۔ بچے بھلے ہی سکول سے چھٹی کرنے کے شوقین ہوں مگر آج کل تو اپنے سکول ‘سکول کے دوستوں‘ ٹیچرز سپورٹس کلاس لنچ ٹائم اور ہوم ٹائم کی مسیتوں کو بہت مس کرتے ہیں۔ دانیال کا کہنا ہے کہ ماما یہ گوگل کلاس بھی کوئی کلاس ہوتی ہے نہ دوست ہوتے ہیں نہ مستی ہوتی ہے نہ فن funہوتا ہے بالکل مزا نہیں آتا ۔ اب ذرا جاتے جاتے۔ ہماری ننھی سی بھتیجی شاہمین کی باتیں بھی سن لیں۔ ساڑھے تین سال کی ہیں اور بابا کی ٹرانسفر پشاور ہونے کے بعد سے تقریباً تین ماہ سے پشاور میں ہیں۔ نیا شہر نیا گھر آس پاس کی ہر شے اجنبی ایسے میں شاہمین کا ننھا سا دل اداس ہوتا تو بابا اور ماما اسے بہلانے کے لئے روزانہ ہی کہیں نہ کہیں لے جاتے۔ کبھی چڑیا گھر کی سیر کر کے وہ چھوٹی سی گڑیاں بہت خوش ہوتی چند ہفتوں میں سامنے والے گھر کی بچیوں سے دوستی ہو گئی۔ ابھی وہ نئے ماحول میں کچھ ایڈجسٹ کر رہی تھی کہ وبا کا موسم پھیل گیا اب چڑیا گھر اور پلے لینڈ نہیں جا سکتے۔ آئس کریم کھانے پر بھی پابندی ہے۔ باہر جانے کا کہتی ہے تو بابا سمجھاتے ہیں باہر تو کورونا ہے اور اب تو شاہمین کو یہ سبق بھی فر فر یاد ہو گیا ہے کہ پہلے ہاتھ دھونے ہیں گھر کھیلنا ہے۔ پھر ہاتھ دھونے پھر کھانا کھانا ہے۔ پھر سینی ٹائزر کرنے ہیں۔پھر دھونے ہیں اور کورونا پہ تو اتنا غصہ ہے کہ اس کی پٹائی کر دینی ہے۔ کورونا بہت گندا ہے میں کورونا کو بہت ماروں گی۔ وہ کہتا ہے ذو نہ جائو۔ آئس کریم نہ کھائو باہر بھی نہیں جانا گندا کورونا!‘‘ بچوں کی معصوم اور سچی باتیں‘ ان تمام بچوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں جو دنیا بھر میں وبا کے موسموں میں اپنے سکولوں سے دور ہیں تفریح گاہوں سے دور اپنے گھروں میں بند ہیں میں ان تمام بچوں کو جب خوف کی اس فضا میں دیکھتی ہوں تو دل درد اور دعا سے بھر جاتا ہے۔ خدا ان بند سکولوں کو جلد رونقوں سے آباد کرے۔ خوف سے آزاد زندگی سے لبریز فضا بچوں کا حق ہے اور اس فضا میں کھلکھلاتے ‘ بھاگتے دوڑنے‘ ہمکتے اور ہنستے حیرانی اور خوشی سے چمکتے ہوئے بچے زندگی کی علامت ہیں!