مصلحت کو شو اٹھو خواب لئے جاتے ہیں زندہ رہنے کے بھی اسباب لئے جاتے ہیں کیا ضروری ہے کہ تم پر بھی قیامت ٹوٹے کیا یہ کافی نہیں احباب لئے جاتے ہیں دل تو یہی چاہتا تھا کہ آپ کو گزشتہ عید مبارک کہوں اور آپ سے میٹھی میٹھی اور خوشبودار باتیں کروں، مگر کیا کروں، کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل۔ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں، پے درپے واقعات و حادثات نے چکر دیا ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے ابھی تو کراحی حادثہ کا ملال بھی پوری طرح محو نہیں ہوا تھا کہ تصور میں دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہو گیا کہ عید کے روز برسر بازار ایک جنسی جنونی پولیس کانسٹیبل نے ایک صالح نیک اور پارسا حافظ قرآن سمیع الرحمن کو اس کے بوڑھے باپ کے سامنے سر میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ یہ بہت ہی دلدوز اور جانکاہ واقعہ ہے۔ اب ذرا عوامی ردعمل دیکھیے کہ قصور کے لوگ ایک مرتبہ پھر سراپا احتجاج ہیں کہ ایسے واقعات لگاتار قصور ہی میں کیوں رونما ہو رہے ہیں۔ درست اور بجا کہا جا رہا ہے کہ مقتدر طاقتیں کوئی اقدام کریں کہ منتخب موجود اور سابق ارکان پارلیمان کو حراست میں لیا جائے اور اس کا سراغ لگایا جائے ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ جب ن لیگ کے دور میں پورنو گرافی کے نیٹ ورک کی نشاندہی کی گئی وہاں کچھ لوگ اس قبیح دھندے میں پکڑے بھی گئے، مگر سیاسی اثرورسوخ نے معاملے پر مٹی ڈال دی اور پھر زینب کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس دبائو میں شہباز شریف نے پریس کانفرنس کی مگر اس میں زینب کے باپ کو بولنے تک کی اجازت نہ دی گئی۔ رانا ثناء اللہ کا مائیک کو ہٹانا سب کو یاد ہو گا۔ برائی کی جڑ کو ختم کرنے کا رواج ہمارے ہاں نہیں اب ایک مرتبہ پھر لوگ شور قیامت کی طرح اٹھے ہیں۔ غم و غصے میں بھرے ہوئے ہیں اور وزیراعلیٰ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تمام اعلیٰ پولیس افسران کو برطرف کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف گرینڈ آپریشن کریں اور جنونی قاتل کو کیفر کردار تک پہنچائیں کچھ ہماری بھی ذمہ داری ہے: ہم لوگ ظلم سہنے کے عادی ہوئے تو پھر ظالم کا ظلم کرنا بھی معمول ہو گیا کبھی ہم ناول hard times کا پتہ دیتے ہیں۔ کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ ایک بے برکتی اور افراتفری ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ وقت نے لوگوں کو ایسا بے حس بنا دیا ہے کہ وہ موت تک بیچنے اور خریدنے لگے۔ اللہ کی قسم پہلے تو کبھی ایسا وقت نہیں آیا تھا۔ پہلے تو جینا دشوار تھا اور اب تو مرنا جینے سے کہیں زیادہ مشکل اور کٹھن ہے۔ اب نہ آپ اکیلے نہیں مرتے۔بعض اوقات مرنے والوںکو کورونا کے کھاتے میں ڈال کر پورے خاندان کو عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور آپ کے پڑوسیوں کو سیل کر دیا جاتا ہے یہ سب ہمدردی سے نہیں بلکہ بے دردی سے کیا جاتا ہے۔ پولیس اور کارندے یہاں بھی اپنے پیسے بناتے ہیں ایک رینگتا ہوا خوف ہر وقت آپکے حواس پر اور آپکو ذہنی مریض بناتا ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپکو سنبھالنے اور سہارا دینے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔ کورونا کا الزام ہی آپ کو اچھوت بنا سکتا ۔ چاہے آپ چھ بھائی ہوں ۔اپنی ماں کو نہیں بچا سکتے۔ اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ یہ میں نہیں کہہ رہا سوشل میڈیا پر چیخنے والے چیخ رہے ہیں۔ امریکہ میں تو نمونیا کو کورونا شو کہا جاتا ہے وینٹی لیٹرز پر لا کر آکسیجن بند کر دی جاتی ہے۔ یہ وہاں کی ہسپتال نرس نے ببانگ دہل کیا اور ساتھ یہ بھی کہ زیادہ تر یہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہاں تو ماشاء اللہ سب مسلمان ہیں پرائیویٹ ہسپتالوں کی تو لاٹری نکل آئی ہے ایک مریض کا ایک دن کا خرچ ستر ہزار روپے سے کم نہیں۔ اس بحث کو چھوڑیں کہ کسی کے مرنے کے بعد حکومت کو کیا ملتا ہے مگر خاندان کے پاس بچت کچھ نہیں ایسے بے ایمان دن آئیں گے کون جانتا تھا: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ میں کیا کروں کہ حالات نے مرا مزاج بہت تلخ کر دیا ہے ایسے کہ جیسے مجھے کئی سانپوں نے یکم دم ڈس لیا ہے اور ان کا زہر مجھے مرنے بھی نہیں دیتا اور جینے بھی نہیں دیتا۔ مجموعی طور پر صورت حال بھی انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔آپ نے ایک اعلیٰ افسر کی بیوی کی ویڈیو دیکھی ہو گی۔ اس کو چھوڑیے پڑھی لکھی شیریں مزاری کی ویڈیو ہی دیکھ لیں۔ ہائے ہائے ہمیں کیا ہو گیا۔ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ بے اعتدالیوں میں سبک سر میں ہم ہوئے جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے میں بھی شاید انجم رومانی کی طرح سوچنے لگا ہوں کہ اپنے اکھڑ پن پر ہم کو معاف کریں احباب ایسے ہم نے صدمے دیکھے بھول گئے آداب تو صاحبو! آپ ہی بتائیں کہ ہم کیا کریں۔ وبا نے ہم کو یکجا نہیں کیا بلکہ اس میں بھی ہمیں تعصبات دکھائی دے رہے ہیں۔ باقی سب کچھ جائز نظر آتا ہے مگر عبادت گاہیں نشانہ ہیں ۔ اس میں بھی کرپشن کیسز سامنے آ رہے ہیں سکول خالی کرو الئے گئے ہیں اور اب لوگ وہاں بھینس اور جانور باندھ رہے ہیں۔ چلیے ایک معرکہ سر کر لیا کہ پہلی مرتبہ سب نے ایک دن عید منا لی اور اس پر بھی ایک فخر سے پھٹا جاتا ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ فخر کرنے والی کوئی بات ہی نہیں۔ کہاں تک سنو گے زمیں سے زمیں تک مری داستان کمال و عروج میں پہلے حصار بدن میں رہا پھر اسیر زماں و مکاں ہو گیا میں سارے مسائل کا حل بھی جانتا ہوں پر کیا کروں۔ پر طبیعت ادھر نہیں آئی۔ وہی کہ آخری در ایک ہی ہے کہ جس کو سجدہ روا ہے خود کو نہیں پہچانے تو اس کی طرف رجوع کرو اپنا آپ بھی سمجھ میں آ جائے گا۔ حافظ قرآن سمیع الرحمن کا قاتل دراصل آپ کے بیٹے کا بھی قاتل ہے۔ آئو ہم حکومت کو مجبور کر دیں کہ اس قاتل کو اس کے انجام تک پہنچائیں۔ اسی میں آپ کے بچوں کی بقا ہے۔