وفاقی حکومت نے میڈیا کے متعلق شکایات کی سماعت کے لئے خصوصی میڈیا ٹربیونلز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا خیال ہے کہ آزادی اظہار کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بریفنگ میں بتایا کہ میڈیا ٹربیونلز کی نگرانی عدلیہ کرے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ بعض عناصر جان بوجھ کر گمراہ کن معلومات پھیلا رہے ہیں اور میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اصلاحات لائی جائیں۔ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دینے والا آئین نافذ ہے۔ جدید سیاسی اور جمہوری شعور کو وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ قابل تقلید قرار دیتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم جس مغربی جمہوریت کی کارکردگی‘ کفایت شعاری اور ذمہ داری کے معترف ہیں وہ پورے سماج کے شعور کا پرتو ہے۔ مغربی جمہوریت کی بے پناہ دلکشی کا سبب وہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ ہر شخص کو اس چیز کے متعلق سوال کرنے کا پورا اختیار اور حق ہے جس پر اس کی طاقت یا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ذاتی معاملات کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ کوئی بلا اجازت کسی کی جائیداد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ہر فرد دوسرے کے کمرے میں جانے سے پہلے اجازت لیتا ہے چاہے وہ اس کی ماں کا کمرہ ہی کیوں نہ ہو۔ کسی کی اجازت یا مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نہیں کہ پاکستان میں اچھے اور موثر قوانین موجود نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی میڈیا کو پھیلنے پھولنے کے نئے مواقع ملے۔ درجنوں نجی ٹی وی چینلز قائم ہوئے‘ کئی اخبارات نے اشاعت کا آغاز کیا‘ بہت سے نجی ریڈیو سٹیشن کام کرنے لگے۔ انٹرنیٹ سے معلومات کا سیلاب امڈ آیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے میڈیا کو غیر ضروری طور پر کسی کی ساکھ خراب کرنے سے روکنے اور قاعدے قانون کا پابند بنانے کے لئے ازالہ حیثیت عرفی کا ایک قانون منظور کیا۔ یہ قانون آج بھی نافذ العمل ہے۔ کسی کو میڈیا کی رپورٹنگ حقیقت سے برعکس اور اپنی ساکھ خراب کرنے کی کوشش معلوم ہو تو وہ عام عدالت سے داد رسی کا طلب گار ہو سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت بہت سے افراد نے عدالت سے رجوع کیا اور انہیں انصاف بھی ملا۔ ملک بھر میں ٹی وی چینلز کی بڑھتی تعداد نے ایسے ادارے کی ضرورت پیدا کی جو ان چینلز پر نشر ہونے والے مواد پر نظر رکھ سکے۔ پیمرا جیسا ادارہ قائم ہوا۔ اس ادارے کے ذریعے سابق ن لیگی حکومت نے کوشش کی کہ میڈیا کو کنٹرول کیا جا سکے تاہم یہ کوشش خرابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ پیمرا کے چیئرمین کے طور پر سیاسی تعیناتی تھی۔ پاکستان پریس کونسل کی شکل میں ایک دوسرا ادارہ موجود ہے۔ اس ادارے میں میڈیا مالکان اور اداروں کے خلاف شکایات کی سماعت ہوتی ہے اور پھر حقائق کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ صحافتی اداروں اور کارکنوں کی اپنی تنظیمیں سی پی این ای‘ اے پی این ایس اور پی ایف یو جے موجود ہیں۔ کسی شکایات کی صورت میں ان تنظیموں کی سطح پر بھی معاملات سلجھا لئے جاتے ہیں۔ مسئلہ نئے اداروں کے قیام کا ہرگز نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین پر صدق دل سے عملدرآمد کیا جائے‘ اداروں کو ان کے مینڈیٹ سمیت کام کرنے کی آزادی دی جائے اور جو فیصلے کئے جائیں ان کو نافذ کیا جائے۔ صحافتی کارکنوں کا ویج ایوارڈ کئی برسوں سے عملدرآمد کا منتظر ہے۔ سابق حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اس پر توجہ دینے سے گریز کر رہی ہے۔ یقینا حکومت کے سامنے ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کچھ چیلنجز موجود ہیں۔ واقعتاً کچھ حلقے حکومت کو بدنام کرنے کی روش کو آزادی اظہار کے ساتھ جوڑ کر اپنے مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں لیکن گزشتہ بیس برسوں کے دوران میڈیا نے ملک کو بہتری کی طرف لے جانے والی ہر کوشش کی حوصلہ افزائی کی۔ وزیر اعظم خود اس بات سے آگاہ ہیں کہ میڈیا نے کرپشن کے خلاف ان کی آواز کو کس طرح ملک کے کونے کونے تک پہنچایا۔ میڈیا کسی حکومت خاص طور پر تحریک انصاف کی حکومت کا دشمن نہیں۔ اس وقت ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ امریکہ افغانستان اور ایران کے معاملات کو ایک نیا موڑ دے کر تشدد کی تازہ لہر پیدا کرنے کے درپے ہے۔ بھارت تنازع کشمیرکو جنگ کے دہانے پر لے گیا ہے۔ بھارتی طرز عمل سے نمٹنے کے لئے قوم اور اداروں کے مابین اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ اور اداروں کی گورننس حکومت کی توجہ چاہتی ہے۔ آئے روز پولیس کے ایسے کارنامے منظر عام پر آ رہے ہیں کہ لوگ اس ادارے سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ معاشی بحالی وزیر اعظم کی ترجیح ہے مگر معاشی بحالی کے لئے اقدامات تاحال نتیجہ خیز ثابت ہوئے نہ ہی عوام کو عمران خان کی جانب سے کئے گئے کسی وعدے پر عمل ہوتا نظر آیا۔ ان حالات میں میڈیا کے لئے الگ عدالتوں کا قیام بظاہر میڈیا پر دبائو ڈالنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت اس معاملے پر دیگر فریقین کی بات سنے اور اس تاثر کی نفی کرے کہ وہ بری کارکردگی پر تنقید برداشت نہیں کر رہی۔