صحافت اور میڈیا پر جیسا بحران اب آیا ہے شاید کبھی اور نہ آیا تھا۔ اخبارات اور چینلوں سے وابستہ کارکنان اور صحافیوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اکا دکا اخبارات کے سوا جن میں 92نیوز بھی شامل ہے۔ شاید ہی کوئی اخبار اور چینل ہو جو اپنے کارکنوں پر بے روزگاری نہ مسلط کر رہا ہو۔ اس تشویشناک صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صحافیوں کی ٹریڈ یونینز بھی تقریباً خاموش ہیں‘ ان کے اضطراب اور بے چینی کو عین ممکن ہے کہ اخبارات اور چینل اپنے صفحات اور نشریات میں جگہ نہ دے رہے ہوں۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافی اور ناہمواری کی نشاندہی کرنے اور انکے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں کے بُرے وقت میں ان کا کوئی ساتھ دینے والا نہیں۔ میں نے جس زمانے میں اس پیشے کو اختیار کیا تھا‘ بہت پرسکون زمانہ تھا۔ معاشرے میں اخبارات کا اعتبار تھا۔ خبروں سے آگاہی کا بڑا ذریعہ اخبارات ہی تھے۔ ریڈیو اور ٹی وی سرکاری چینل تھے اور سرکار ہی کے ترجمان بنے رہتے تھے۔سیاسی سطح پر کوئی ہلچل مچتی تھی تو لوگ باگ صحیح صورتحال جاننے کے لئے بی بی سی سنا کرتے تھے۔ مگر تب بھی تفصیلات کے خواہش مند اخبارات ہی سے رجوع کیا کرتے تھے۔ اخبارات کی سرکولیشن معقول ہوا کرتی تھی۔ گھر میں ہاکر کا ڈالا جانے والا اخبار گھر کے کئی افراد کے زیر مطالعہ رہتا تھا۔ ٹیکنالوجی کی ترقی‘زندگیوں میں آنے والی تبدیلیاں‘موبائل فون اور کمپیوٹر کے استعمال کی بڑھوتری چینلوں کی بھر مار ‘ ذوق و مذاق کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اخبارات و رسائل سے رغبت کم ہوتی چلی گئی۔ اب کم ہی لوگ ہوں گے جنہیں اخبار بینی سے رغبت ہو‘ جو ہاکر کی آمد کا انتظار کرتے ہوں اور اخبار کے ناغے پر مضطرب رہتے ہوں یہ سوچ کر کہ آج اخبار نہیں پڑھا۔ جانے کل دنیا میں ملک اور شہر میں کیا کچھ ہوا ہو گا۔ کچھ جاننے کی آگاہی اور آگہی کی طلب مطالعے کے لئے اخبارات اور کتابوں سے رجوع کرنے پرمجبور کرتی تھی۔ اب چینلز کی خبروں سے یہ طلب پوری ہو جاتی ہے۔ کسی بھی چھوٹے بڑے واقعے کی تفصیل جاننے کی کھکھیڑ میں کوئی پڑنا نہیں چاہتا۔ سرسری اطلاعات اور ادھ کچری معلومات ہی طلب کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی سمجھی جاتی ہے۔ میں میڈیا کی تعلیم کا چونکہ استاد ہوں اور برسہا برس سے اس بات پر رنجیدہ رہتا ہوں کہ میرے میڈیا کے طالب علم سرے سے اخبارات ہی نہیں پڑھتے۔ رسائل اور کتابیں پڑھنا دور کی بات ہے۔ وہ اخبارات نہ پڑھنے کا عجیب و غریب من گھڑت جواز رکھتے ہیں۔ وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں‘ مصروفیت اور ملازمت کو اخبار نہ پڑھنے کاجواز بتاتے ہیں۔ کوئی بہت سچا طالب علم ہی صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ سر! چینلوں سے خبریں مل جاتی ہیں اس لئے اخبار کیوں پڑھوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ چینلوں کی خبروں سے بھی مشکل ہی سے استفادہ کرتے ہوں۔ اصل وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ جاننے کی طلب ہی نہیں رکھتے۔ ان میں آگاہی اور آگہی کی پیاس ہی نہیں ہے۔ وہ پڑھیں تو کیوں پڑھیں۔ نہ پڑھنے سے ان میں کسی کمی کسی محرومی کسی نقصان کا قلق ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر وہ کیوں پڑھیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کو اپنے طالب علموں کی حد تک بدلنے کی میں نے جی جان سے کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے انہیں بتایا کہ آج کی دنیا میں معلومات ہی طاقت ہیں۔ آگاہی اور آگہی کے بغیر تم میڈیا میں آگے تک نہیں جا سکو گے۔وغیرہ۔ لیکن وہ نہایت سعادت مندی سے میری باتیں اور نصیحتیں سنتے ہیں ‘مان بھی لیتے ہیں لیکن اپنی عادت میں پھر بھی مطالعہ اخبار کو شامل نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ نئے زمانے کی جو ہوا چلی ہے اس میں عدم آگہی میں نئی نسل کو نجات محسوس ہوتی ہے۔کوئی شبہ نہیں کہ دنیا بھر میں مطبوعہ ذرائع ابلاغ پر زوال آیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی نے پرنٹ میڈیا کو بڑی حد تک غیر موثر بنا دیا ہے۔ اخبارات اور رسائل کی سرکولیشن گر رہی ہے۔ کتابیں پڑھنے کے شوقین بھی نیٹ یا موبائل پر اپنی گنی چنی پسندیدہ کتابیں پڑھتے ہیں۔ کاغذ پر کتابیں پڑھنے کا رجحان رفتہ رفتہ گھٹتا جاتا ہے۔ کمپیوٹر اور موبائل کی سکرین سے نگاہوں کی دوستی اور آشنائی ایسی ہو گئی ہے کہ کاغذ کے لمس کی لطف و لذت سے ناآشنائی ہو گئی ہے۔ اس صورت حال کے نتائج کیا ہوں گے؟ اس سے کیسے نمٹا جائے؟ ہم اس پر غور اس لیے نہیں کر رہے کہ غورو خوض کرنے کی بھی کسے مہلت ہے اور کوئی سوچے سمجھے بھی تو بھی صورتحال کا مداوا کوئی کس طرح کرے۔عادت مطالعہ کچھ نہیں عادت کے سوا اور عادت ماحول اور صحبت سے پیدا ہوتی ہے۔ والدین اگر خود پڑھنے کے عادی نہ ہوں تو بچوں میںیہ عادت کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ نئے زمانے کے اساتذہ خود کتابیں نہیں پڑھتے تو انہیں یہ خیال کیسے آ سکتا ہے کہ طالب علموں میں کتاب اور اخبار سے رغبت پیدا کریں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ پچاس برسوں میں اخبار و کتاب کا مستقبل کیا ہو گا؟ آثار اچھے نہیںہیں اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی ایسا انجکشن یا گولی ایجاد کر لی جائے جس کے استعمال سے انسانی ذوق و مذاق کو بدلنے پہ انسان قادر ہو جائے۔ ظاہر جب میڈیا اور خصوصاً صحافت پر اس کے استعمال کنندہ کی کمی واقع ہو گی اور ہوتی جائے گی تو اس کے منفی اثرات صحافت پر مرتب نہ ہوں گے۔ افسوس کہ اس بحران پر حکومت اور سول سوسائٹی اخبارات و صحافیوں کی انجمنیں بھی خاموش ہیں اور تدارک کے لئے کوئی لائحہ عمل تجویز کرنے سے قاصر ہیں۔ مجھے آئے دن فارغ التحصیل طلبہ جو کسی نہ کسی اخبار یا چینل سے وابستہ ہیں‘ فون پر مطلع کرتے رہتے ہیں کہ انہیں اخبار یا چینل سے فارغ کر دیا گیا ہے اور ہو سکے تو میں اپنے اثرورسوخ سے انہیں کسی اور اخبار یا چینل پر رکھوا دوں۔ چونکہ یہ خاکسار اپنے طلبہ کو اپنی پروڈکٹ سمجھتا ہے اور اسے مارکیٹ کرنے کی ذمہ داری بھی میڈیا کے اساتذہ کی سمجھتا ہے اس لئے ان طلبہ کو تسلی دے کر خاموش کرا دیتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کی ملازمت کا بندوبست ہو جائے گا۔ لیکن بندوبست ہو تو کیسے اور کہاں سے؟ میری ناچیز رائے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال پر غورو خوض کے لئے ایک کمیشن بنایا جائے جس میں حکومت‘ سول سوسائٹی‘ عدلیہ اور میڈیا کے پیشے اور تعلیم کی دنیا سے لوگ منتخب کر کے اس کمیشن میں شامل کئے جائیں۔ جو وسیع بنیادوں پر اس ساری صورتحال پہ توجہ دے‘ غورو خوض کرے اور پھر اس کے تدارک کے لئے اپنی سفارشات مرتب کرے اور ان سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔اگر ہنگامی بنیادوں پر ایسا نہ کیا گیا تو معاشرے میں میڈیا سے وابستہ اور ناوابستہ تربیت و تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی ایک فوج ظفر موج کھڑی ہو گی جو معاشرے میں انتشار و اضطراب پھیلانے کا باعث ہو گی۔ خود میڈیا مالکان کو بھی چاہیے کہ اے این ایس اور سی پی این ای کے پلیٹ فارموں کو اس مسئلے کے حل کے لئے استعمال کیا جائے اور اس سلسلے میں صحافتی تنظیموں کی بھی مدد لی جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو کوئی بڑا بحران پیدا ہونے سے پہلے صورت حال کے تدارک کی کوئی نہ کوئی تدبیر اور صورت نکل آئے گی۔ بصورت دیگر یہ بحران پانی کے ڈیم نہ ہونے کے بحران سے کچھ کم بڑا ثابت نہ ہو گا۔