قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کو بتایا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے لئے 20اپریل تک 300میڈیکل آفیسرز بھرتی کئے جائیں گے جبکہ قبائلی اضلاع میں تین میڈیکل کالجوں کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ قبائلی اضلاع کو جب صوبہ خیبر پی کے میں ضم کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی اسے وہ تمام سہولیات میسر ہونا لازم ہوں گی جو صوبے کے باقی اضلاع کو ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے 73برسوں میں نہ تو قبائلی علاقہ جات کی ترقی پر توجہ دی گئی نہ ہی وہاں پر ریاست کی رٹ قائم تھی۔ صحت، تعلیم اور سڑکوں کے حوالے سے بھی قبائلی علاقہ جات محروم تھے۔ ان اضلاع میں بہتر ہسپتال موجود ہیں نہ ہی میڈیکل کالجز‘ نہ بہترین یونیورسٹی کا وجود ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور نے 20اپریل تک 300میڈیکل آفیسرز کی بھرتی کا مستحسن فیصلہ کیا ہے‘ اس سے قبائل میں موجود ہسپتالوں کی حالت بہتر ہو گی۔ مریضوں کو بروقت اچھے ڈاکٹرز سے علاج معالجہ میسر ہو گا جبکہ خلق خدا کو پہلے سے موجود کام چور افسران سے نجات ملے گی۔ میڈیکل کالجز میں قبائلی طلبہ کے کوٹے کو اس بات سے مشروط کیا جائے کہ طلباء تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے اپنے اضلاع میں کچھ عرصہ ڈیوٹی کرنے کے پابند ہونگے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں میں قبائلی طلبا کا کوٹہ مقرر کیا جائے تاکہ وہ وہ بہتر انداز میں تعلیم حاصل کر سکیں۔یوں قبائل کی محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے ۔