صدرپاکستان غلام اسحاق خان افغانستان میں افغان مجاہدین کے مابین اقتدار کے لیے خانہ جنگی پر بڑے مضطرب اور پریشان تھے،پاکستان کے مقتدر حلقے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے مابین خوفناک جنگ کے نتیجے میں افغانستان کو تقسیم ہوتا دیکھ رہے تھے،صدر پاکستان نے سینیٹر فریداللہ کو بلا بھیجا ،فریداللہ قبائلی علاقہ جات سے منتخب سینیٹر تھے،قبائلی ممبران میں سب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صائب الرائے،قبائل اور افغانستان کے بارے میں ان کا علم اور تجربہ بہت وسیع تھا،ان کی عادات،خیالات اور روایات کو اچھی طرح سمجھتے تھے،صدر پاکستان نے افغانستان میں حکومت اور فوج نہ ہونے اور مجاہدین کی لڑائی کے نتیجے میں افغانستان کی نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کے خدشے پر اس مسئلے کے حل کیلیے فریداللہ سے تجاویز مرتب کرنے کو کہا تو فریداللہ نے جواب دیا،جناب صدر!آپ اطمینان رکھیں،افغانستان کبھی تقسیم نہیں ہوگا۔میں آپ کو اس کا یقین دلاتا ہوں اور لکھ کر دینے کو تیار ہوں۔ ان کو لڑنے دیں، بالآخر لڑتے لڑتے اچانک انکے مابین صلح ہوجائے گی یا کوئی ایک مکمل شکست کے بعد دوسرے کے اقتدار کو تسلیم کرلے گا۔یہی انکا انجام ہے اور یہ ہوکر رہے گا۔فریداللہ خان کی یہ بات آج بھی اتنی ہی سچ ہے جتنی 90ء کی دہائی میں تھی۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں عبرتناک شکست کھا چکا ہے۔ پاکستان اور ارد گرد سے ہوائی اڈے مانگنے کی بھاگ دوڑ محض خفت مٹانے کیلیے ہے،اگرچہ اس خطے میں امریکہ کے مفادات ہیں لیکن ان مفادات کی رکھوالی کا بوجھ اٹھانے کیلیے کوئی کندھا دستیاب نہیں،پورے علاقے سے اس کو دیس نکالا دیا جاچکا ہے اور مستقبل قریب میں اس طرف نہیں آئے گا۔امریکہ اس خطے کو روس اور چین کا حلقہ اثر تسلیم کرچکا ہے جس طرح روس نے مغربی یورپ کو امریکہ کے لیے چھوڑ رکھا ہے اسی طرح امریکہ اس خطے کو بھول جائے گا۔ انڈیا عنقریب پھر سے غیرجانبداری کا ڈھونک رچاتے ہوئے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کے لیے گڑگڑاتا نظر آئے گا۔ اس کی غیر جانبداری کا لبادہ امریکہ سے دور ہونے کا سبب بھی نہیں بنے گا کیونکہ انڈیا اس کے لیے غنیمت ہے کہ کوئی غم خوار تو ہو جس کے کندھے پر سر رکھ کر دونوں آنسو بہایا کریں۔ آئندہ کبھی امریکہ 2001ء سے پہلے والا ملک نہیں ہوگا،نہ نیٹو کا فوجی اتحاد پہلے کی طرح مضبوط اور پراعتماد دکھائی دے گا۔روس چین کا اتحاد اور اس اتحاد کا وسط ایشیا ،ایران،افغانستان اور پاکستان کے ساتھ قریبی اقتصادی، سفارتی اور دفاعی شعبہ میں تعاون نیٹو سے کہیں زیادہ مؤثر، مضبوط اور طاقتور ہونے جارہا ہے۔ترکی جو کبھی یورپی اتحاد کا ممبر بننے کے لیے مرا جارہا تھا،اس کی قرابت امریکہ کے مقابلے میںروس کے ساتھ زیادہ ہورہی ہے،جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے،پاکستان نے 1965ء کے بعد امریکہ سے دور رہ کر زندہ رہنے کا قرینہ سیکھ لیا ہے۔ پاکستان کو خوب معلوم ہے کہ امریکہ سے جدائی کا زمانہ ہی بہترین زمانہ تھا، جب اس نے دفاعی خود انحصاری کی راہ اختیار کرلی، دفاعی اسلحہ جنگی طیارے،ایٹمی قوت اور چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد وہ امریکہ کی بلیک میلنگ اور بھارتی گیدڑ بھبکیوں سے نجات پاگیا،پاکستان کی خوشحالی کا انحصار امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں اپنے خطے کے ساتھ جڑا ہے، امریکہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان ہی نہیں،اس پورے خطے کو بھول کر مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم اکھڑنے سے بچاسکتا ہے تو کوشش کردیکھے،ورنہ اگلے چند برسوں میں اسے مشرق وسطیٰ اور جاپان کو بھی کھو دینا ہے،دیکھنا یہ ہے کہ مغربی یورپ کا اپنے ہمسائے روس اور زمینی رستوں کے ذریعے ملے ایشیا کو کب تک نظر انداز کرسکتا ہے ۔مستقبل کی دنیا 2022ء کے شروع ہوتے ہی نئی جہت میں متشکل ہونا شروع ہوجائے گی۔ آج کا امریکہ سفارتی،اقتصادی اور فوجی میدانوں میں اپنی اڑھائی سو سالہ تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، امریکہ نے پوری دنیا میں جو پاؤں پسارے ہیں،اس کے مقابلے میں اس کی چادر بہت چھوٹی رہ گئی ہے۔اسے خود کو بچانے کے لیے کم از کم نصف صدی اپنے خول میں سمٹ جانا ہوگا جس طرح روس افغانستان سے انخلا کے بعد سمٹ گیا تھا،امریکہ کو اپنی پچاس ریاستوں کے تحفظ اور خوشحالی کی طرف متوجہ رہنا ہوگا،ورنہ اس کے سیاسی اور اقتصادی اداروں کی جو حالت ہے وہ زیادہ دیر تک کیلیفورنیا جیسی خوشحال ریاستوں کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے گا۔ پچھلی دو دہائیوں سے امریکہ کے افغانستان میں مصروف رہنے کے سب سے خوش کن اثرات مسلمان ملکوں کے لیے ہیں، افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد نیٹو برطانیہ اور امریکہ نے نظریاتی اور فوجی محاذ پر مسلمانوں کو اپنی تلوار کی دھار پر رکھ لیا تھا۔حالیہ دو عشروںمیں امریکہ کو افغانستان کی دلدل میں دھنسا دیکھ کر چین اور روس اس مقام پر آپہنچے ہیں کہ امریکہ اور یورپ پرانا اتحاد قائم رکھ سکیں تو بھی اس بڑے خطرے سے باہر نکلنے کے لیے اسے پوری رواں صدی انتظار کرنا پڑے گا۔نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے،اس جنگ کے خاتمہ تک مسلم ممالک انکے وار جھیلنے اورنظریاتی کشمکش کا سامنا کرنے کیلیے پوری طرح تیار ہوچکے ہونگے۔اس عرصے میں انڈیا کا کانٹا اور اسرائیل کا ناجائز وجود اپنے انجام کو پہنچ چکیں گے۔افغانوں نے کیا خوب کہا ’’گھڑی تمہارے پاس ہے اور وقت ہمارے پاس‘‘ چنانچہ گھڑی ٹوٹ گئی مگر وقت کو کون روک سکا۔ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر دنیا بھر میں امریکہ کی غیر ضروری جنگوں کے خلاف تھے حتی کہ حال ہی میں اقتدار سے الگ ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تمام تر حماقتوں اور بڑبولے پن کے باوجود امریکہ کے پھیلے ہوئے فوجی اڈوں اور مہنگی جنگی سرگرمیوں کیخلاف تھے،سابق صدر جمی کارٹر نے اپریل 2019ء کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ’’کیا آپ جانتے ہیں 1979ء سے لے کر اب تک چین نے کتنے ملکوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا؟نہیں،ایک جنگ میں بھی نہیں۔ جبکہ ہم اس عرصہ میں مسلسل جنگوں میں مصروف رہے،امریکہ کی پوری تاریخ جو دو سو بیالیس سال پر محیط ہے اس سارے عرصہ زندگی میں صرف سولہ سال ایسے ہیں جو امریکہ نے بغیر جنگ کیے امن کے ساتھ بسر کیے۔ہم سب سے زیادہ جنگ پسند کرنے والی قوم ہے،ہم نے دو سو پچاس سال کی مدت بیکار جنگوں میں ضائع کردی اور چین نے جنگوں پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ اب چین زندگی کے ہر شعبے میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ صدر کارٹر اور ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک ہو کہ افغانستان میں طالبا ن نے امریکہ اور اسکی جنگ پسند فوج کو ایسی ذہنی، جسمانی اور اقتصادی اذیت میں چھوڑا ہے کہ امریکی قوم اگلے پچاس سال کسی دوسرے ملک پر جارحیت کے قابل نہیں رہی۔مجبوری ہی سہی مگر امریکی اپنے گھر امن سے رہنے پر مجبور ہوں گے۔ اس مجبوری کی پہلی نشانی یوں ظاہر ہوئی کہ جمعرات 16جون کو وائس آف امریکہ کے مطابق پینٹا گون کے ترجمان جنرل میکنزی نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں افغان فوج کی مدد کے لیے منصوبہ بندی نہیں کررہا ہے،افغانستان سے انخلا کے بعد افغان فوج کی مدد کیلئے امریکہ کوئی مشن جاری نہیں رکھے گا ،بوقت ضرورت ہم صرف اس صورت میں کسی ٹارگٹ کو نشانہ بناسکتے ہیں جس سے امریکہ کو براہ راست خطرہ لاحق ہو۔ جنرل میکنزی کے بیان سے اس بات کی نفی ہوجاتی ہے کہ امریکہ آس پاس ملکوں میں فوجی اڈوں کی تلاش میں ہے جہاں سے وہ افغانستان میںغنی حکومت یا کابل کے محاصرے کی صورت میں فضائی مدد فراہم کرسکتا ہے،امریکہ کے دوٹوک اعلان کے بعد’’افغانستان کی کھسیانی بلّی‘‘نے کہا ہے کہ افغانستان کی فوج اور فضائیہ ایسی مہارت رکھتی ہے کہ از خود اپنی حکومت اور کابل کا دفاع کرسکے۔اسکے جواب میں طالبان کے ترجمان نے کہا ہے امریکہ شکست کھا کر بھاگ نکلا ہے،دنیا میں کوئی فوج ایسی نہیں جس میں آقا ہار جانے کے بعد بھاگ جائے اور ان آقاؤں کے غلام میدان میں کھڑے رہ سکیں ہوں۔ امریکی انخلاء کے بعد افغان حکومت ایک ہفتہ بھی برقرار نہیں رہ سکے گی۔