ڈاکٹر خورشید رضوی کہتے ہیں: یہ بادہ و جام و مینا تو سب دلاسے ہیں لبوں کو دیکھ وہی عمر بھر کے پیاسے ہیں مگر ہمارے ایک قابل احترام بزرگ دانشور تو جام و مینا کو علاج غم اور دکھوں کا مداوا بتاتے ہیں اور مصائب و مشکلات کو بھول کر میکدے آباد کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ وہ بڑی حسرت سے میکدوں کی ویرانی پر آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ یہ محترم کالم نگار اور تجزیہ کار بڑے جاندار تجزیے اور تبصرے کرتے ہیں مگر ہر دوسرے چوتھے روز قوم کو یہ باور کرانا نہیں بھولتے کہ میکدوں کی آبادی سے ہماری خانہ بربادی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ اپنے ایک تازہ کالم میں انہوں نے موجودہ حکومت کی ’’حماقتوں‘‘ سے مایوس ہو کر اپنے تجزیے کا جو نچوڑ پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی تو مکان راحت ہو‘ جہاں پریشانیاں باہر رکھ کر آدمی اندر جا سکے اور سارا غم بھلا کر باہر آ سکے۔ مرزا اسد اللہ غالب فرمایا کرتے تھے: مئے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ایک گونہ بے خودی دن رات چاہیے اس بے خودی کے متلاشی مرزا غالب نے مے کی حقیقت کے بارے میں تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے اپنے وقت سے بہت آگے کی بات کی‘ فرماتے ہیں: اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں ہمارے دانشور مے کو غم و اندوہ کا علاج گرادنتے ہیں جبکہ بلا نوش مرزا غالب اس سوچ کو ایک بہت بڑی غلط فہمی قرار دیتے ہیں۔ ہمارے محترم کالم نگار کا ورلڈ ویو اچھا ہے‘ مگر مجھے حیرت ہے کہ ان کی نظر سے اس خانہ بربادی اور معاشرتی تباہ حالی کی تفصیلات نہیں گزریں جن کا سب سے بڑا سبب اُمِ الخبائث ہے۔ تازہ ترین امریکی تحقیقات کے مطابق تقریباً پونے دو کروڑ امریکی کثرت شراب نوشی کی بنا پر زندگی کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔ مرد و خواتین کی اس بے قابو مے نوشی کے نتیجے میں شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں‘ گھر کا سکون تہ و بالا ہو جاتا ہے‘ بچوں کی سکولوں میں کارکردگی اے پلس سے سی اور ڈی پر آ جاتی ہے اور وہ بالی عمریا میں نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ایسے مے نوش اگر گرتے پڑتے اپنے کام کی جگہوں تک آمدورفت کا کچھ انتظام کر بھی لیں مگر انہیں جلد ہی اپنی ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔امریکہ میں کثرت مے نوشی کے اسباب و اثرات اور مختلف افراد کے ہولناک تجربات پر مبنی رپورٹیں تیار ہوتی ہیں اور عوام ‘ بالخصوص نوجوانوں تک پہنچائی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکیں۔ حکومت اس پراجیکٹ کے لیے بہت بڑا بجٹ مختص کرتی ہے۔ زیادہ شراب نوشی کی بنا پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ امریکی کینسر‘ جگر اور مثانے وغیرہ کے جان لیوا امراض کا شکار ہیں۔ امریکہ میں اس موضوع پر سائنسی تحقیقات ہو رہی ہیں اور شراب کی مذمت میں مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ انہیں تحقیقات کے مطابق امریکہ میں ہر سال 88ہزار افراد کثرت مے نوشی کی بنا پر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ امریکہ میں 12برس سے لے کر 17برس تک کے بچوں کو نوجوان شمار کیا جاتا ہے۔ اس وقت تقریباً 8لاکھ 25ہزار امریکی نوجوان مے نوشی کے سبب انتہائی مہلک امراض کا شکار ہیں۔ ان نوجوانوں میں نصف تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ یہ بن کھلے مرجھا جانے والے پھول نہ صرف اپنی زندگی برباد کر لیتے بلکہ اپنے پیاروں کو بھی نہ مندمل ہونے والے زخم لگا دیتے ہیں۔ مے نوشی کے اخراجات فراہم کرنے کے لیے نوجوان ان گنت جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور بڑی عمر کے لوگ قرض کی مے پیتے رہتے ہیں حتیٰ کہ ان کے کریڈٹ کارڈ بلاک ہو جاتے ہیں اور ان کے بنک انہیں نوٹس پر نوٹس بھیجتے ہیں اور خوش حال بلا نوش کام کاج چھوڑ بیٹھتے اور ناقابل تصور قسم کی بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال صرف امریکہ میں نہیں دیگر یورپی ممالک میں بھی ہے۔ ایسے ہی کچھ برادر ملکوں کے قصیدے ہمارے محترم دانشور اکثر پڑھتے رہتے ہیں۔ شراب نوشی کی لائی ہوئی بربادیوں پر امریکہ میں تشویش و تحقیق نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے جب 19ویں صدی کے آواخر میں بے شمار امریکی گھرانے ویرانے بن رہے تھے اور خاندانی جھگڑوں‘ گالم گلوچ اور مارکٹائی کے مناظر پیش کر رہے تھے تو اس وقت امریکہ میں پروٹسٹنٹ عیسائیوں اور سوشل ریفارمرز نے مل کر زبردست تحریک چلائی اور لوگوں کے اندر شراب کی تباہ کاریوں کے بارے میں زبردست شعور اجاگر کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی عوام نے آگے بڑھ کر شراب پر مکمل پابندی کیلئے آواز اٹھائی۔ اس موقع پر کئی ریاستوں نے اپنے طور پر شراب پر پابندی لگا دی۔ شراب نوشی سے بے خود رہنے والوں نے ان ریاستوں کو ’’خشک ریاستیں‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ یہ تحریک قومی سطح پر برگ و بار لے آئی اور 1920ء میں امریکہ میں 18 ویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے مطابق شراب سازی‘ اس کی درآمد اور اس کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی گئی۔ آغاز میں اس ترمیم کو بہت خوش آمدید کہا گیا۔ پھر شراب ساز کمپنیوں نے اربوں ڈالر خرچ کر کے شراب نوشی اور شراب سازی کے حق میں مہم چلائی اور بالآخر 1933ء میں 21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دوبارہ شراب سازی کی اجازت دے دی گئی دانش انسانی یہاں تک ہی جا سکتی تھی جبکہ دانش ربانی نے ایک سدا بہار اصول وضع کر دیا تھا کہ شراب کے نقصانات اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے قابل احترام دانشور شراب نوشی کو حیات آفریں سمجھتے ہیں جبکہ امریکی دانشور اسے پیغام موت گردانتے ہیں۔ امریکہ میں روزانہ پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ہزاروں ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جو مے نوشی کے مداحوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ ہم شاید شعوری یا لاشعوری طور پر وہ تجربات کرنے پر بھی تلے ہوئے ہیں جن تجربات کے انتہائی تلخ ثمرات آج کی سب سے بڑی ترقی یافتہ قوم بھگت رہی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں سفرِ امریکہ کے دوران ایسا ہی ایک چشم کشا واقعہ مجھے اوکلا ہا ماسٹی کے سب سے بڑے ہسپتال کے نوجوان پاکستانی ڈاکٹر سے سننے کا موقع ملا۔ یہ واقعہ آپ ڈاکٹر بلال کی زبانی ہی سنیے۔ ’’ابھی کچھ عرصہ قبل ایک مریضہ کی حالت نے مجھے پریشان کئے رکھا۔ صرف 27برس کی دوشیزہ کو برلب مرگ اس کا بوائے فرینڈ ڈرنک حالت میں ہسپتال کی ایمرجنسی پہنچا کر چلتا بنا۔ چونکہ وہ قسمت کی ماری اس وقت اپنے طور پر سانس لینے کے قابل بھی نہ تھی چنانچہ اس کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کر کے وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا۔ علاج کے دوران بارہا انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے اسے وارڈ میں ٹرانسفر کیا گیا مگر پھر حالت کی خرابی کی بنا پر اسے واپس آئی سی یو میں لایا جاتا۔ مریضہ کے سرہانے فقط اس کی ماں تھی جو سینکڑوں میل کا سفر کر کے آتی تھی۔ ایک ماہ سے زیادہ اپنی بیٹی کے پاس ہونے کی وجہ سے اپنی نوکری گنوا بیٹھی ‘وہ حیران و پریشان تھی کہ اس کی بیٹی جو سکول میں ہمیشہ اے پلس لیتی رہی اس لعنت کا شکار کیسے ہوگئی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ نوجوان مریضہ کا باپ بھی ایک ڈاکٹر ہے اور ایک شہر میں اپنی دوسری بیوی کے ساتھ مقیم ہے۔ اس سارے عرصے میں لڑکی کا باپ نہ اپنی بیٹی کی خبر لینے آیا اور نہ اس نے کبھی فون پر رابطہ کیا۔ جب ہم نے اس لڑکی کے باپ کے شہر میں نرسنگ ہوم میں اسے ٹرانسفر کرنا چاہاکیونکہ اس کا کوئی علاج یہاں ممکن نہ تھا اور ہم میں سے اس کا کوئی اپنا نہ تھا تو باپ نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ آخر کار وہ لڑکی ہمارے ہی ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان کی بازی ہار گئی۔‘‘ یہ واقعہ سنا کر نوجوان پاکستانی ڈاکٹر نے ایک سرد آہ بھری اور کہا کہ اگر بعض دانشور شراب کی وطن عزیز میں آزادانہ فروخت چاہتے ہیں تو امریکہ میں اس آفت کی حشر سامانیاں دیکھ کر ان کے لیے میرا مشورہ یہ ہو گا کہ وہ اپنی مرضی کے کسی ’’عظیم‘‘ ملک میں منتقل ہو جائیں اور قدامت پسند پاکستان اور پاکستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ اپنی گفتگو کے آخر میں ڈاکٹر بلال نے بتایا کہ شراب نوشی کے لائے ہوئے طوفان بدتمیزی کے آگے امریکہ میں جو پروگرام کسی حد تک کامیاب ہوا ہے تو وہ Alcohal Anonymousہے۔ اس پروگرام کے تحت ہر شہر کے کسی چرچ میں ہر ماہ میٹنگ کی جاتی ہے۔ جہاں عادی شرابی آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔ انہیں صرف اور صرف خدا کی رحمت کی امید دلائی جاتی ہے اور انہیں روحانی و باطنی ہمت و حوصلہ دلایا جاتا ہے۔ اس روحانی قوت کے ساتھ وہ اس آفت کے خلاف لڑتے ہیں اور بالعموم کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ہمارے محترم دانشور تو مے خانے کو علاج غم سمجھتے ہیں جبکہ فراق گورکھپوری کی گواہی اس کے برعکس ہے: آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراق جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے حضور والا! ہمارے غم کا مداوا مے کدے نہیں دانش کدے آباد کرنے سے ہو گا۔