اک یار طرح دار بھی ضروری تھا اور اس کی سمت سے انکار بھی ضروری تھا چٹان چوٹ پہ چنگاریاں دکھانے لگی تراشنا شہکار بھی ضروری تھا یہ فنکار بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کم از کم نارمل تو بالکل نہیں ہوتے وگرنہ وہ عام ہو جاتے۔ وہ خاص ہوتے ہیں۔ روڈن نے کہا تھا کہ میں مجسمہ کب بناتا ہوں میں تو چٹان سے اضافی پتھر ہٹا دیتا ہوں۔ گویا مجسمہ تو پتھر کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ یہ ذہن رسا کی بات ہے اور تخلیقی ذہن کا ادراک۔ بہرحال میں کوئی ادق مضمون نہیں لکھنے جارہا۔ مجھے تو خوشبو سے بنی ہوئی ایک نازک اندام اور بہار رنگ شاعرہ پروین شاکر کا تذکرہ کرنا ہے بلکہ اس کی یاد میں ہونے والے ایک شاندار مشاعرے کا ذکر بھی کرنا ہے کہ جو ڈاکٹر محمد حلیم ڈائریکٹر آرٹس کونسل گوجرانوالہ نے کارواں ویلفیئر سوسائٹی گوجرانوالہ کے ساتھ مل کر آرٹس کونسل کے خوبصورت ہال میں برپا کیا تھا۔ شعر و ادب سے معمور یہ شاندار تقریب اس شہر کے باسیوں کے ذوق و شوق کا پتہ دے رہی تھی۔ پہلوانی کا تاثر تو یکسر زائل ہوتا دکھائی دیتا۔ شعرا کی تعداد بھی کافی تھی اور ان کا کلام تازہ ذائقوں سے لبریز تھا۔ پروین شاکر پر بھرپور مضمون پروفیسر احمد شاد نے پڑھا۔ پروین شاکر نے سچ کہا تھا: مر بھی جائوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے پروین شاکر خوشبو سے انکار تک ارتقائی عمل میں رہی۔ شہزاد احمد مجھے بتانے لگے یار‘ دیکھو اس نے کیسے کلیثے بھی توڑے ہیں اور نامقبول اندزاپنایا اور نثری نظم تک کہہ چھوڑی۔ اصل میں شعری دفور یکسانیت کو پسند نہیں کرتا۔ پروین نے اپنے بے باک نسائی جذبوں کو شعروں میں ڈھالا تو ایک عہد کو اس نے متاثر کیا۔ واقعتاً کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی اور سب نے خوشبو کی طرح اس کی پذیرائی کی۔ پھر اسے احمد ندیم قاسمی جیسا عظیم تخلیق کار مل گیا جنہیں وہ’’ عمو ‘‘ کہی تھیں۔ مزے کی بات یہ کہ میری اس سے اولین ملاقات احمد ندیم قاسمی کی 75 ویں سالگرہ پر ہوئی اور میرا یہ حافظہ اس کے ایک جملے سے مہکتا رہا۔ بھئی بڑی شہرتیں ہیں۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کے نظم کے بے بدل شاعر اختر حسین جعفری نے تین کتب کا دیباچہ تحریر فرمایا تھا۔ پروین شاکر‘ نجیب احمد اور راقم۔ تو یوں ایک نسبت تو تھی اس سے۔ دو شعرا یعنی فراز اور پروین شہرت کے اعتبار سے روشن ستارے تھے۔ پروین مقابلے کے امتحان میں بیٹھی پرچے میں خود پر ہی سوال دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ وہ دانش کے زینے پر آئی: اپنا تک جنوں ہی اپنا اثاثہ رہا مگر تجھ سے ملے تو صاحب ادراک ہو گئے پروین شاکر کی یاد میں ہونے والی اس تقریب کی کاوشیں سعید بھٹی نے کیں۔ اس کی پرزور دعوت پر میں دوسری مرتبہ آیا۔ اس بار میرے ہم دم دیرینہ میرے کلاس فیلو عبدالماجد جو انگریزی میں برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کر کے ڈاکٹر‘ بن چکے ہیں۔ اسلامی اور تعلیمی میدان میں اس کے کارہائے نمایاں پر میں الگ سے لکھوں گا ۔ صدارت تو میری ہی تھی اور اسلام آباد سے راشدہ ماہین مہمان بنیں۔ شمسہ گیلانی پروگرام آفیسر تھیں۔ ثمر راحت کی کمپیئرنگ۔ سب نے مل کر پروین شاکر کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ شعراء کی تعداد کافی تھی۔ چیدہ چیدہ نمونہ کلام دیا جا سکتا ہے مگر پروین شاکر پہ لکھی ہوئی ایک ہونہار شاعرہ کی نظم نے بہت متاثر کیا۔ پتہ چلا کہ یہ طرحدار شاعرہ صوفیہ چوہدری پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں۔ نظم آپ خود دیکھ لیں: وہ ماہ پارہ سخن کی دیوی صبا نے جس سے کلام سیکھا گلوں نے جس سے خرام سیکھا ہوا کے رتھ پر سوار ہو کر وہ خوشبوئوں کے سفر پہ نکلی اذیتوں کو شمار کر کے وہ تتلیوں کے نگر کو نکلی کبھی وہ خوابوں کے کینوس پر عذاب راتوں میں چھید کر کے چمکتی چاندی سے پھول کاڑھے کبھی وہ بارش کی بوند بن کر چمن کے برگ و ثمر سنوارے وہ ایک عورت کے روپ میں بھی وفا سے لبریز جام ٹھہری وہ شاعری کے حسین نگر میں مثال ماہ تمام ٹھہری یہ ادبی دیانت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اچھی تخلیق قارئین تک پہنچ جائے۔ فرحانہ عنبر نے بھی مترنم غزل سے جادو جگایا: تمہیں بھی خبر ہے چلے آئو ناں زندگی مختصر ہے چلے آئو ناں یہ مشاعرہ 24 نومبر 2020 ء کی شب ہوا۔ میرا خیال ہے کہ اب آپ کچھ شعرا کے اشعار ہی دیکھ لیں, ستم کچھ اور سہنا ہے ابھی کچھ یار باقی ہیں (شوکت ڈار) ویسے تیرا شہر وے بیبا ساڈی نگری ٹھہر وے بیبا (مقصود جاوید) دشمن کیتی تاں وی منی سچی گل نوں رد نہیں کیتا (علی احمد گجرانی) عمر بھی آہستہ آہستہ بڑھتی ہے وقت کے لمحے بھی اک اک کر کے چلتے ہیں اکیس سال کی ہونے تک اک لڑکی کو تیس اکتیس سال تو اکثر لگتے ہیں (سعید اقبال سعدی) آنکھ کے دائرے میں رہتے ہو آنکھ تم پر کمال رکھی ہے (ڈاکٹر ایم ابرار) وہ مجھ سے ملنے کبھی وقت پر نہیں پہنچا میں سوچتی ہوں کہ اب بھیج دوں گھڑی اس کو (راشدہ ماہین ملک)