کچھ لمحے ہوتے ہیں جو آپ کی لوح یاد پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ ایک روز میرے پسندیدہ اداکار سہیل احمد عرف عزیزی مجھے ملے تو یک دم اپنے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر رکھ دیے اور کچھ دیر پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھتے رہے پھر گویا ہوئے’’یار!آپ نے ماں کے حوالے سے کیا کالم لکھ دیا ہے‘‘ ان کی طرف سے داد مجھے پہلے بھی پہنچ چکی تھی لیکن ان کی تحسین کا یہ انداز اپنے اندر کتنی اپنائیت رکھتا تھا۔ اسی طرح ایک روز میں ان کے سیٹ پر گیا تو باقاعدہ اٹھ کر گلے ملے۔ یہ ادب آداب اور یہ قرینہ ان کے شفاف اور اجلے پن کا پتہ دیتا ہے۔ اس عزت اور شرف پر بہت بات ہو سکتی ہے کہ یہ نور خون میں رواں ہوتا ہے۔ یہ خاندانی روشنائی ہے جس سے بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے اپنے قلم کے ذریعہ صفحات قرطاس پر حکمت و دانش کے موتی سخن کی لڑی میں پروئے۔ یہ سلسلہ محمد جنید اکرم کی شکل میں اب بھی روشن نظر آتا ہے۔ محمد جنید اکرم سہیل احمد کے چھوٹے بھائی اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نواسے ہیں اور ان کی ادبی اور شعری سلطنت کے وارث بھی خوبوتو ان سب کی خاندانی ہے کہ شرافت انکساری اور فقیری جیسے ان کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ ابھی چند یوم پہلے محمد جنید اکرم نے اپنا پہلا شعری مجموعہ آہن ہجر مکا بھیجا تو میں نے پہلی فرصت میں اسے دیکھا کہ مجھے اس کی صلاحیت کا اندازہ تو پہلے ہی سے ہے میں اپنی بات کرنے سے پہلے اگر اپنے محترم ڈاکٹر یونس احقر کے الفاظ میں کچھ عرض کر دوں تو قارئین زیادہ بہتر انداز میں جنید کے سلسلہ کو سمجھ پائیں گے، عظمتاں دے اقرار تے عقیدتاں دے اظہار لئی رومیاں نوں اقبال‘ اقبالاں نوں فقیر، تے فقیراں نوں جنید میسر آئوندے آئے نیں تے مستقبل وچ وی ایہہ سلسلہ چلدا رہوے گا۔آپ اس اقتباس کی تلمیح اور جنید کی رعائت کو سمجھ گئے ہونگے۔ یہ صوفیا اور بزرگوں کی باتیں کچھ سمجھ میں آئی ہیں کچھ نہیں کہ یہاں رومی کی کتابیں اٹھا کر شمس تبریزی تالاب میں پھینکتا ہے اور پھر سوکھی باہر بھی نکال لیتا ہے۔ یہ ایک اور دنیا ہے کہ جب لو لگانے والے اپنے خالق سے لو لگاتے ہیں اور اپنے علم کو عمل بناتے ہیںتو پھر سکھانے والا وہ کچھ بھی سکھا دیتا ہے جو سائل اور سالک کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ یہی تو علم لدنی ہے۔ میں اس بحث کو طویل نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو بات کرنا چاہتا ہوں محمد جنید اکرم اور اس کی شاعری پر۔ تمہید میں نے ماں کے ذکر سے قصداً باندھی تھی کہ محمد جنید اکرم کی محبت بھی اپنی ماں کے اردگرد گھومتی ہے کہ سارا فیض انہیں وہیں سے ملتا نظر آتا ہے تبھی تو سلسلہ ان کا ان کے نانا کے ساتھ استوار ہوا۔ جنید اکرم کی شاعری کی کلید اور اساس سمجھنے کے لئے اس کے ٹائٹل شعر ہی کافی ہیں: اَسوں دی چٹھی کھل رہی آپ سن وے میریا سوہنیاں سئیاں ہجر دے مہنے مارے کہیاں کد مکے گا سوچی پئی آں ہجر والا صحرا وے ڈھولا یہ وہی بات ہے کہ بانسری کی بانس سے جدائی ہے، ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔ محمد جنید اکرم نے جو کام بھی کیا ہے اس کے پیش نظر ایک مقصد اور مقصد بھی اعلیٰ اور ارفع ہے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ وہ پنجابی یعنی ماں بولی کی خدمت کر رہا ہے اور یہ بھی مفید بات کہ وہ اردو کے خلاف ہرگز نہیں بلکہ اس کے اردو کے دوشعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ مگر پنجابی اس کے اندر ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ اپنے نانا کی گدی پر ہی نہیں بیٹھا بلکہ پنجاب یونیورسٹی اورنٹیئل کالج والوں نے اسے فقیر محمد فقیر چیئر پر بٹھایا تھا۔ وہ آئے دن اپنے نانا کی شائع شدہ اورغیر شائہ شدہ کتب چھاپتا رہتا ہے اور ان کا پنجابی رسالہ بھی باقاعدگی سے شائع کرتا ہے۔ میں تو زیر نظر شعری مجموعہ میں انور مسعود کا دیباچہ پڑھ کر حیران ہو گیا کہ انہوں نے جنید پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ نہ صرف اس کی طبع زاد شاعری کی تعریف کی ہے بلکہ جنید کے لئے گئے اقبال کی نظموں کے تراجم کو بھی بہت سراہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح جنید نے پنجابی زبان کے دامن میں پھول ڈالے ہیں۔ کاش پنجابی کو آغاز ہی میں ہمارے نصاب میں ڈالا جاتا تو ایسا کام کتنا مفید ہوتا۔ ترجمے کی ایک مثال دیکھیے: گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو بھاتی ہے بات بکری کی (اقبال) انج تے چھوٹی اے ذات بکری دی چنگی لگدی اے بات بکری دی ( ترجمہ ) اس نے انگریزی نظموں کا بھی ترجمہ پنجابی میں کیا ہے۔محمد جنید اکرم نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور کامیاب ٹھہرا۔ آپ اس شعری مجموعے کو یقینا پسند کریں گے اس شعری مجموعے کا دیباچہ سہیل احمد ہی نے لکھا ہے سہیل احمد کالم بھی باقاعدہ لکھتے رہے ہیں۔ وہ جنید کے حوالے سے رقم طراز ہیں: بال پنے توں سدھا بزرگی وچ چھال مارن والیاں دی اڈاری بڑی داڑھی ہوندی اے۔ ایہناں دی نظر ڈوہنگی تے اچی ہوندی اے۔ وقت توں اگے ویکھدے نیں۔ جیوندے جی قبر وچ ایہہ جاندے نیں۔ بھنجے بہہ کے تے عرش والیاں نال گلاں کر دے نیں۔ خلقت ایناں دا ذکر فقیر تے درویش جیسے لفظاں نال ذکر کر دی اے۔ جنید اکرم ہوراں نے وی بال پُنے توں سدھی بزرگی وچ چھال کڈھ ماری اے‘‘