جدید سیکولر، لبرل میڈیا اوراس کے زیرِ اثر سوشل میڈیا کے مشترکہ ’’گٹر‘‘ کی بدبو اور تعفن سے وہ خاتون اسقدر تنگ آئی ہوئی تھی کہ ایک طویل صبرآزمازندگی، بلیک میلنگ اور اذیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ایک دم پھٹ پڑی کہ سب غلاظت اور گند تو میرے ہی ٹک ٹاک پارٹنر کا ہے۔ وہ سارے دانشور، صحافی ، ادیب، حقوقِ نسواں کے این جی او زادے جو مینارِ پاکستان کے واقعے کے بعد سے پاکستانی معاشرے کے خلاف ایک مقدمہ قائم کیے ہوئے تھے، ہر روز اسے بدنام کرتے تھے، ان سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ’’گٹر‘‘ جہاں تھا بدبو کا سراغ بھی وہیں سے ملا۔ معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کو ایک پلاننگ کے تحت میڈیا اور سوشل میڈیا کی چکاچوند اورکارپوریٹ سرمائے سے اخلاق باختہ بنایا گیا ہے۔ اس ’’جدید‘‘ طبقے کی تعداد پاکستان میں آٹے میں نمک کے برابر ہے، لیکن گزشتہ چند سالوںسے پاکستان کا مین سٹریم ’’پرنٹ اور الیکٹرانک‘‘ میڈیا ان کی پشت پناہی کرتا چلا آرہا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کچھ ایسی نادیدہ قوتوں کا یرغمال بن چکا ہے جو حقوقِ نسواں کے بظاہر ایجنڈے کے نام پر اس ملک میں فحاشی اور بے راہ روی کے کلچر کو نہ صرف فروغ دینا چاہتی ہیں بلکہ اگر کوئی اس بے راہ روی کے ’’گٹر‘‘ کی جانب اشارہ بھی کردے تو فوراً تمام میڈیا، سوشل میڈیا اور’’ سول سوسائٹی‘‘اس پر ایسے پِل پڑتی ہے جیسے اسکی زبان گدی سے کھینچ لیں گے، آنکھیں پھوڑ ڈالیں گے اور ملک میں فحاشی، عریانی، بے راہ روی اور غلاظت کی نشاندہی نہیں ہونے دیں گے۔اس کیلئے ایک لفظ یاتصور ایجاد کیا گیاہے جسے مغربی زبان میں "Blaming the victim" یعنی مظلوم کو ہی قصوروار ٹھہراناکہتے ہیں۔ اس تصور کے ساتھ یہ بھی طے کر دیا ہے کہ مظلوم ہر صورت میں عورت ہی ہوگی یا پھر وہ مرد ہوگا جو معاشرے کی اخلاقی حدود کو توڑ کر بغاوت کر تے ہوئے کسی حادثے کا شکار ہوجائے۔ مینارِ پاکستان پر ہونے والے واقعہ سے پہلے ایک تسلسل سے تین بہت اہم واقعات ہوئے، جن کے حوالے سے ہمارے میڈیا، سوشل میڈیا اور ’’سول سوسائٹی‘‘ کا روّیہ اسقدر سفّاکانہ، جاہلانہ اور خوفناک تھا کہ محسوس ہونے لگا کہ پاکستانی معاشرہ ان کا یرغمال بن چکا ہے۔ پہلا کیس 9ستمبر 2020ء کو سیالکوٹ موٹروے پر رات گئے ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا معاملہ تھا۔ یہ واقعی ایک دردناک واقعہ تھا۔ اس واقعہ کے چند منٹ بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک خالصتاً دردمندانہ لہجے میں کہا کہ خاتون کو چلنے سے پہلے اپنا پیٹرول دیکھ لینا چاہیے تھا، اور رات کے وقت سنسان و بیابان موٹروے کی جگہ جی ٹی روڈ سے سفر کرنا چاہیے تھا۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ پورا میڈیا اور سول سوسائٹی اس پر ٹوٹ پڑی۔ اگر راستوں کی خطرناکی کا اندازہ پہلے سے کرناسفر کی پلاننگ کا حصہ نہ ہوتا تو دنیا بھر میں ہر بڑی شاہراہ پر وارننگ بورڈ اور سگنل کبھی موجود نہ ہوتے۔ لیکن یہاں معاملہ سی سی پی او کا نہیں تھا بلکہ اس تصور کا تھا کہ تم ہوتے کون ہو یہ پوچھنے والے کہ عورت جب، جس وقت ، جہاں اور بغیر کسی ساتھی کے باہرکیوں نکلی ہے۔ پورے پاکستان کو اسقدر خوفزدہ کیا گیا کہ سی سی پی او نے معافی مانگی۔ اس کی معافی یقینا ایک باپ کی معافی تھی جو اپنی بچی کو دیر سویر باہر جانے سے ٹوکتا ہے اور لوگوں کے کہنے پر معافی مانگتا ہے۔ پورے میڈیا پر کسی کو یہ فقرہ تک کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ اسلام تو حج پر بھی عورت کومحرم کے بغیر جانے کی اجازت نہیں دیتا، اگر سنسان راستوں پراکیلے نکلے گی تو نتیجہ یہی ہوگا۔ دوسرا واقعہ جولائی 2021ء کو پیش آیا جب ایک شخص عثمان مرزا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک نیم برہنہ جوڑے پر تشدد کرتا ہوا عورت کو سیکس کرنے پر مجبور کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ جوڑا اس سے مسلسل بلیک میل ہوتا چلا آرہا تھا اور اس طرح کے کئی اور جوڑے بھی تھے جو عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں کے بنائے گئے محفوظ مقامات پرعموماً چھپ کر دادِ عیش دینے آیا کرتے تھے۔ یہ جوڑے ان ٹھکانوں کو ایک قابلِ اعتبار جگہ سمجھ کر آتے تھے۔ یہ ایک پورا گھن چکر تھا جس کی اصل بنیاد’’ محفوظ اور خفیہ‘‘ جگہ کی فراہمی تھی جہاں یہ جوڑے جاتے اور پھر ان کی بدنصیبی، عثمان مرزا کی صورت انہیں گھیرلیتی ۔ سکینڈل کے سامنے آنے سے لے کر آج تک میڈیا، سوشل میڈیا یا سول سوسائٹی کا روّیہ دیکھ لیں، آپ کو کہیں کوئی شخص یہ گفتگو کرتا نظر نہیں آئے گا کہ اسلام آباد میں غیرقانونی اور غیر شرعی حرکات کرنے کیلئے جابجا ’’محفوظ‘‘ ٹھکانے میسر ہیں اور یہ کاروبار زوروں پر ہے۔ اگر اِکا دُکا ایسی آوازمیڈیا پر سنائی بھی دی گئی تو فوراً جدید سیکولر آزاد خیال مافیا کود پڑا۔ تم کون ہوتے ہو یہ سوال کرنے والے کہ ایک عورت، جہاں، جدھر اور جس کے ساتھ چاہے تنہائی میں بیٹھے، رات گزارے۔ یعنی وہ بنیاد جس نے اس جرم کی دنیا کو جنم دیا، اسکی نشاندہی سے میڈیا کوزبردستی روک دیا گیا، کیونکہ اس سے خواتین کی آزادی پر قدغن لگتی تھی۔ تیسرا کیس مشہور نور مقدم کیس ہے۔ یہ کیس اپنے تمام خدوخال اور قرائن و شواہد سے جدید ’’مغربی تہذیب ‘‘کا نمائندہ کیس ہے۔ امریکہ اور یورپ میں روزایسے قتل ہوتے ہیں۔ ایک جوڑا معاشرتی بندھنوں اور ازدواجی پابندیوں سے ماورا ایک ساتھ رہنا شروع کرتا ہے جسے "Living together"کہتے ہیں۔ وہاںاس کی معاشرتی حیثیت شادی سے کم نہیں ہوتی۔ پھر ایک دن دونوں میں اختلافات پھوٹ پڑتے ہیں۔ خاتون چھوڑ کر کسی دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے لگتی ہے۔ ایسے میں جذبات سے مغلوب سابقہ بوائے فرینڈ اسے قتل کر دیتا ہے یا کسی پلاننگ سے گھربلا کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ ایسا دوسری جانب سے بھی ہوتا ہے یعنی سابقہ گرل فرینڈ بھی اس کے گھر جاکر یا اسے گھر بلا کر قتل کر دیتی ہے۔ اس قتل و غارت کو ’’جذباتی جرم‘‘ (Crime of Passion)کہا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر جدید مہذب ، سیکولر، لبرل اور اخلاق باختہ معاشرے میںایسے قتل روز ہوتے ہیں۔ مغرب میںصرف دس فیصد عورتیں ایسی ہیں جو اجنبی مردوں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، باقی سب کو ان کے سابقہ شوہر، سابقہ بوائے فرینڈ یا موجودہ شوہر اورموجودہ بوائے فرینڈ موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ نور مقدم کاکیس بھی ایساہی تھا، جس نے پاکستانی معاشرے میں پہلی بار یہ اخلاقی سوال اٹھایا کہ کیا ایک مرد و عورت والدین کی اجازت کے بغیر یا اجازت کے ساتھ معاشرے کی اخلاقیات کے برعکس ایک دوسرے سے ایک مکان میں تنہا مل سکتے ہیں اور اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ لیکن پورے ملک میں کسی کو یہ سوال اٹھانے کی جرات نہ ہوسکی۔نورمقدم اس گھر کو ایک محفوظ ٹھکانہ، آسرا اور بسیرا سمجھ کر آیا کرتی تھی اور اس دن بھی ایسا ہی تھا۔ ایسے میں لڑائی کے دوران کوئی بھی ایک دوسرے کو قتل کر سکتا تھا۔ اگر نور مقدم پہلے سے غصے میں ہوتی، اورہتھیار ساتھ لے جاسکتی ۔ لیکن دوسری جانب غصہ، نفرت اور پلاننگ زیادہ تھی، اس لیئے قتل ہوگئی۔ چوتھا کیس مینار پاکستان والی عائشہ کا ہے جس نے تنگ آکر جب زبان کھولی تو سیکولر لبرل ’’مہذب‘‘ دنیا کا گٹر ابل پڑا۔ وہ صحافی اور دانشور جو اس پاکستانی معاشرے کے لٹ جانے پرہر روز نوحہ کناںتھے ان کے منہ پر زوردار طمانچے رسید ہوئے۔یہ معاشرہ ابھی تک صاف ہے، ابھی اس میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ شروع ہوئی ہے۔اسے ابھی سے نہ روکا گیا تو پھر پورا معاشرہ تعفن زدہ ہوجائے گا اور سب سے پہلے ان ہی لوگوں کے گھر اجڑیں گے جو ایسے آزادماحول سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔