مانیں یا نہ مانیں‘ سچ یہ ہے کہ قبلہ شیخ جی نے اپنے اس اعلان‘ وعدے یا دعوے پر عمل شروع کر دیا ہے جو انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کیا تھا۔ فرمایا تھا کہ آج سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ یعنی آئندہ سے سچ بولا کریں گے۔ تو وہ ’’آئندہ ‘‘ آ گیا اور انہوں نے سچ بولنے کی نیٹ پریکٹس شروع کر دی ہے۔ ایک بیان میں فرمایا بہت اچھا ہوا کہ آئی ایم ایف وغیرہ نے قرضوں کی وصولی ملتوی کر دی ورنہ ہم تو ’’آلموسٹ‘‘ دیوالیہ ہو چکے تھے۔ابھی یہ ان کا پریکٹس کا مرحلہ ہے۔ جاری رکھیں گے تو مزیدسچ بھی برآمد فرمائیں گے: ع کہ آتا ہے سچ کا چلن آتے آتے یہ سچ انہوں نے اپنی حکومت کے صدر المہام سے لے کر اپنے ہم منصب صدق بیانوںکی اس تکرار مسلسل کے باوجود بولا ہے کہ ہم نے معیشت ٹھیک کر دی۔ اب معیشت اوپر جا رہی ہے‘ اچھے دن آ گئے‘ ملک مشکل حالات سے نکل گیا وغیرہ وغیرہ۔ شیخ جی نے ہمت کی اور سچ بول دیا۔ سچ ہے کہ ہمت کرے انسان تو کیا کر نہیں سکتا۔ ٭٭٭٭٭ یہ سوال بہرحال اپنی جگہ کہ دیوالیہ ہونے کا مرحلہ آخر کیوں آیا۔2018ء میں جب چوروں ڈاکوئوں کی حکومت ختم ہوئی تو زرمبادلہ کے خزانے میں 18ارب ڈالر چھوڑ کر گئی۔ نیک پاک ایماندار لوگ حکومت میں آئے اور آتے ہی قرضے لینے شروع کر دیے۔دوسرے ملکوں سے 8ہزار 215ارب کے قرضے لئے۔ دوست ممالک سے ساڑھے پانچ ارب ڈالر بنکوں میں رکھوائے وہ الگ‘ آئی ایم ایف سے اربوں کا قرضہ لیا وہ اس سے سوا۔اور جو اندرونی قرضے لئے ان کا تو کچھ حساب ہی نہیں۔ پھر یہی نہیں‘ بجلی گیس اور تیل کے نرخ اتنے بڑھائے کہ تنہا انہی کی وصولی ایک بجٹ کے برابر ہوتی۔ ٹیکس جو نئے لگائے وہ الگ اور پہلے سے لگے ٹیکس میں اضافے سو الگ۔ اس کے بعد تو خزانے کو صرف لبا لب بھر ہی نہیں جانا چاہیے تھا بلکہ دریائے زر کو چھلک کر گراس روٹ تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ لیکن شیخ جی تو آلموسٹ دیوالیہ‘ کی خبر دے رہے ہیں۔یہ اتنے اربوں کھربوں کے نوٹ پھونک کر کون سی دیوالی منائی گئی تو دیوالیہ پٹ گیا؟ شیخ جی نے نیٹ پریکٹس جاری رکھی تو شاید اس کا سچ بھی کسی دن کسی پریس کانفرنس میں ‘ کسی ٹاک شو میں بیان فرما دیں؟ پیوستہ رہ شجر سے…! ٭٭٭٭٭ ادھر آٹے چینی کے بحران سے متعلق خبروں کی چھما چھم تو رک گئی لیکن اکا دکا بوند ٹپک ہی پڑتی ہے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے ٹاک شوز اور اخباری تجزیوں میں یہ اطلاع دینے کی مہم شروع کر دی ہے کہ بلا شبہ اربوں کی ڈکیتی ہوئی لیکن جہانگیرترین کے خلاف کوئی قانونی کارروائی قانونی مجبوریوں کی وجہ سے ممکن کمی نہیں اور وہ صاف بچ نکلیں گے۔ کیوں جی؟ قانونی مجبوریوں کا بہانہ کہاں سے آ گیا؟ اصل وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ اس کی منظوری خود صاحب والا کی زیر صدارت اجلاس میں دی گئی تھی؟ چلیے ‘ چھوڑیے۔ یہ کہانی آنے والا وقت بتا ہی دے گا۔ فی الحال یہی کہنا کافی ہے کہ قانونی کارروائی کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ارادہ ہو تو پناماسے اقامہ بھی نکال لیا جاتا ہے۔ ارادہ ہی نہ ہو تو ایک بات ہے۔ ویسے بھی اس ایک ڈیڑھ کھرب کی ڈکیتی کی اوقات ہی کیا‘ کون سا ’’ایلیٹ طبقے‘‘ کا استحقاق مجروح ہوا‘ غریبوں ہی کی جیب تو کاٹی گئی۔ ع یہ ’’رزق ‘‘خاک نشیناں تھا ’’نذر ‘‘خاک ہوا ٭٭٭٭٭ آٹے چینی کا معاملہ ہو یا دوائوں میں اربوں کی لوٹ مار کا‘ پشاور بی آر ٹی میں ایک کھرب کے لگ بھگ اجاڑے کا ہو یا بلین ٹری سونامی میں اربوں روپے کی’’صفائی‘‘ کا۔ تفتان سے زائرین بنا چیک کئے ملک بھر میں پھیلانے کا ہو یا اسی طرح کے اور بہت سے گفتنی یا ناگفتنی سلسلے‘ سارے کھرے ایمانداروں کے قلعے معلی ہی کی طرف نکلتے ہیں۔ ع یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ایمانداری کا ایسا وفور برصغیر کی تاریخ میں پہلے کب دیکھا گیا تھا؟ ٭٭٭٭٭ اچھی بات اچھی ہے تو اس کا ذکر کرنا بری بات کیوں ہے؟ چارسدہ کے صحافی عابد جان کو پولیس نے اس لئے گرفتار کر لیا کہ اس نے پختونخواہ کے وسیم اکرم پلس کے عظیم الشان پروٹوکول قافلے کی خبر جاری کر دی تھی۔ پروٹوکول تو اس دور میں بہت اچھی بات سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے تو حکمران جماعت کا ہر بڑا اپنے سے کہیں بڑے پروٹوکول جلوس لے کر گھومتا ہے۔ وہ بات تو غالباً لاعلمی میں کہہ دی گئی تھی کہ ہم آئیں گے تو پروٹوکول ختم کر دیں گے‘ سائیکل پر دفتر جایا کریں گے۔ ٭٭٭٭٭ چرچل کو بتایا گیا کہ دشمن نے بہت بڑا حملہ کر دیا ہے۔ چرچل ذرا بھی نہیں گھبرایا‘ بس یہ پوچھا کہ کیا ’’نیب‘‘ ہمارے مخالفوں سے پورا پورا’’انصاف‘‘ کر رہا ہے؟ جواب دیا گیا کہ جی‘ پورا پورا انصاف‘بے لاگ ‘ بلا امتیاز اور اکراس دی بورڈ انصاف کر رہا ہے۔ آدھے مخالف اندر ہیں‘ جو باہر ہیں‘ وہ منقار زیر پر ہیں۔چرچل مسکرایا اور بولا‘ پھر فکر کی کوئی بات نہیں‘ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ (نیب کا تازہ بیان۔ ہم پر کسی’’دم‘‘ کا اثر نہیں ہوتا) ٭٭٭٭٭ لاک ڈائون کو بالواسطہ ’’ناپسند‘‘ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہمیں غریب طبقے کی فکر ہے۔دو کروڑ افراد کو بے روزگار کرنے‘ اس سے زیادہ کو غربت کی لکیر کے نیچے لڑھکانے‘ سفید پوش طبقے کو میلا پوش کرنے‘ روزگار کے امکانات کا قلعہ قمع کرنے اور مہنگائی کا طوفان نوح لانے کے بعد غریبوں کے لئے یہ فکرمندی قابل داد تو کیا ہو گی‘ قابل دید ضرور ہے۔