مقبوضہ کشمیر کے نہتے اورمظلوم عوام کی حالت زار کے حوالے سے دنیا بھر کے ایوانوں میں آوازیں اٹھنے لگیں جب کہ برطانیہ کے ارکان پارلیمان بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے خلاف بول اٹھے۔جمعرات 14جنوری 2021ء کو برطانوی رکن پارلیمنٹ برطانوی وزیر اور 10 ارکان پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی بے بسی پرکھل کرگفتگوکی اور بھارتی ظالمانہ پالیسیوں پر کڑی تنقید کرنے کے ساتھ برطانوی حکومت پر بھی مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم پر واضح موقف اختیار کرنے کے لیے زور دیا۔لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی برطانوی رکن پارلیمنٹ سارا اوون نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا لاک ڈائون عوام کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ جبری تسلط کے لئے ہے۔5 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو قید کر رکھا ہے. انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں مشاہدے میں آئی ہیں،کشمیری مسلمانوں کو اسپتالوں میں جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ ان اراکین کاکہناتھاکہ بھارتی فوجی خواتیں کو ان کی گھر کی دہلیز پر ہراساں اور ان کی عصمت پر حملے کیے جارہے ہیں۔برطانیہ نے ہمیشہ خواتین کے تحفظ کی بات کی ہے۔کیا مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اراکین پارلیمنٹ کے بیانات ان کے اقدامات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے پناہ کی درخواست کرنے والی خواتین کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔مقبوضہ کشمیر میں ہلاکتوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہار پر پابندی ہے۔ مودی سرکار کیخلاف بات کرنا دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔ رکن پارلیمنٹ جیمز ڈیلین نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کا سنگین مسئلہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور جبری گمشدگیاں عام ہیں۔ مغربی میڈیا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خاموش ہے۔ مقبوضہ علاقے میں ریپ اور جنسی تشدد کے اندوہ ناک واقعات ہو رہے ہیں، ہمیں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف متحد ہونا ہے۔جان سپیلر کاکہناتھا کہ مقبوضہ کشمیر اور پنجاب کی صورت حال بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں،ہم بھارت کے اس نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم بھارت کے خلاف نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسے ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔انسانی حقوق ایک عالمی معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار بھارت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے لیے بھارت نے اپنے قانون میں ردوبدل کیا۔بھارت مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کر رہا ہے۔ڈیموگرافی کو تبدیل کر کے بھارت ایک ممکنہ ریفرنڈم کے مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سارا برٹی کلئیر کاکہناتھاکہ گزشتہ سال سے سیاسی و انسانی حقوق کے لیے بات کرنے والے ہزاروں کشمیریوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کوعدالتی و قانونی کارروائی کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ان کاکہناتھاکہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان یہ تنازع باعث تشویش ہونا چاہیے۔ناز شاہ نے کہا کہ 2015ء سے 2020ء کے دوران برطانیہ نے 50 ارب پائونڈ مالیت کا اسلحہ بھارت کو بیچا۔یہی اسلحہ کشمیریوں کا خون بہانے میں استعمال ہو گا،بورس جونسن نے بھارت کا دورہ تو ملتوی کیا ہے، کیا وہ اسلحہ بیچنا بھی بند کریں گے؟عالمی اداروں،ِ حکومتوں اور قائدین کوبھارت کو کشمیروں کی نسل کشی سے روکنا چاہیے، یہ امن کا وقت ہے ، کچھ نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ کنزرویٹو پارٹی کی روبی مور نے کہا کہ بھارت کسی غیر ملکی صحافی کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد 300 سے زیادہ کشمیریوں کی جانیں گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی حاصل کر کے حقائق کا پتا لگانا چاہیے۔ برطانیہ کو فریڈم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔پال برسٹونے کہا کہ حق خود ارادیت انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ہمارے وزیروں کو بھارتی وزرا کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے۔ ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کی جیم شینن کا کہنا تھا کہ بھارت نے 144 کشمیری بچوں کو حراست میں لیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی حراست کے حوالے سے کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے پہلے 3 ماہ میں 204 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مذہبی آزادی پامال کی جا رہی ہے۔ برطانوی حکومت کو بین الاقومی مبصرین کی مقبوضہ علاقے تک رسائی کی کوشش کرنی چاہیے۔لیبر پارٹی کے اسٹیفین کنوک کاکہناتھاکہ کشمیر سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے،گذشتہ 30برس سے 95 ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے،مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اصلا برطانیہ کا پیدا کردہ مسئلہ ہے اور اس کے حل کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔اس لئے برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے کشمیرپرایک بار پھرجو آواز اٹھائی اورکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کی بات یہیں ختم نہیں ہوجانی چاہئے بلکہ ان اراکین کوچاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں۔یہ اراکین مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے لیے اپنی حکومت پر اثر و سوخ استعمال کریں اوردنیاکی قضاوقدر کے مالک بنے بیٹھے حکمرانوں اوردیگراداروں کو خطوط لکھیں اورانہیں کشمیرمسئلے کے حل کے لئے سامنے آنے کوکہیں۔ دنیا کو بتایا جائے کہ اس مسئلے کاحل نہایت سادہ اور آسان ہے اور وہ یہ کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کی شرط عائد کی جائے ۔دنیاکواس امر کا احساس دلایاجائے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وہ اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق کام نہیں کر رہی ۔ دنیاکے مردہ ضمیروںکویہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کشمیرسلگ رہا ہے اور دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے ۔ کشمیر ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اور کوئی اس کی فکر نہیں کر رہا۔