صد شکر کہ قائد اعظم کے یوم پیدائش پر پاکستانی قوم کے علاوہ ناقدین نے بھی عظیم اور بے مثل لیڈر کی دور اندیشی کا احساس و اعتراف کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد تو مداح اور عقیدت مند ہی قائد کی بصیرت کے گن گاتے تھے یا چند انصاف پسند ناقدین‘ مگر اب خراج تحسین وہ پیش کر رہے ہیں جنہوں نے کئی عشروں تک دو قومی نظریے کو ہندو دشمنی اور تنگ نظری پر محمول کیا‘ ابوالکلام آزاد‘مدنی گروپ‘ عبدالغفار خان‘ عبدالصمد اچکزئی اور کئی دوسرے قائد اعظم کی آزاد وطن کے لئے جدوجہد اور تحریک پاکستان کو انگریزوں کی چال تک کہہ گزرے جس کا مقصد عظیم ہندوستان کی قوت و طاقت کو کمزور اور ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنا تھا مگر آج پاکستان میں کسی کو یہ کہنے کی جرأت ہے نہ بھارت میں متحدہ قومیت کے کسی پرچارک کی یہ مجال کہ وہ پاکستان بنانے کے فیصلے کو غلط کہہ سکے۔ نریندر مودی نے بھارت کو خالص ہندو ریاست بنانے کا آغاز اب کیا ہے مگر قائد اعظم نے اس کی نشاندہی 1947ء سے پہلے کر دی تھی۔ جموں و کشمیر کے عوام کو غیر ہندو یعنی مسلم ہونے کی سزا مل رہی ہے اور شہریت بل کا مقصد بھی کلمہ گو مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں بہاریوں اور برما میں رہنگیا کے انجام سے دوچارکرنا ہے۔ کانگریس نے سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر چھ عشروں تک مسلمانوں کو بے وقوف بنایا مگر ہندو اکثریت کا مزاج بدل سکی نہ عقیدے کی بنا پر مسلمانوں سے نفرت کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں کامیابی ہوئی‘ قائد اعظم نے 1938ء میں اس حقیقت کا ادراک کیا بلکہ برملا اظہار بھی‘ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا ’’ ہندوستان میں ایک مستقل ہندو اکثریت ہے اور باقی اقلیتیں ہیں جو عرصہ دراز تک اکثریت بن جانے کی توقع نہیں کر سکتیں‘ ہو سکتا ہے کہ اکثریت غیر فرقہ واریت کا نقاب اوڑھ لے لیکن وہ اپنی سرشت اور اقوال و افعال میں بلا شرکت غیرے’’ہندو‘‘ ہی رہے گی ‘‘سیکولرازم اور جمہوریت نے ذات پات‘ چھوت چھات کی قائل تنگ نظر ’’ہندو‘‘ ذہنیت کو بدلا نہ اکثریت کو دوسری اقوام کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھایا۔ مودی کا کمال یہ ہے کہ اس نے اکثریت کا باطن عیاں کیا اور قائد اعظم کی بصیرت سے اقوام عالم کو روشناس کرایا‘ ہمارے بعض دانشور مگر ان اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے والے معدودے چند ریٹائرڈ ججوں‘ تجزیہ کاروں اور ہندوستان کو اپنی آنکھوں سے ایک بار پھر ٹوٹتے دیکھ کر واویلا مچانے والے عیار لیڈروں کے بیانات پڑھ کر قائد اعظم کے پیرو کاروں کو یہ بتانے کی سعی کر رہے ہیں کہ یہ اقلیتی آوازیں ہندوستان کی مجموعی سوچ کی آئینہ دار ہیں۔ یوم قائد اعظم کے موقع پر دو قومی نظریے کی افادیت تو کھل کر سامنے آئی مگر ہماری قومی قیادت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر قوم کو بلند آہنگی کے ساتھ قائد اعظم ؒکی فکر اور اقبالؒ کے تصورات سے آگاہ کیانہ دو قومی نظریے کی حقانیت نوجوان نسل کے قلب و روح میں جاگزیں کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ چند برس پہلے تک یوم پاکستان ‘ یوم اقبال‘ یوم قائد اعظم پر سرکاری سطح پر خصوصی تقاریب ہوتیں‘ تعلیمی اداروں کو بطور فوکس کیا جاتا اور اہم سرکاری عہدیدار ان تقاریب میں شریک ہو کر قوم کا حوصلہ بڑھاتے‘ مگر اب ہمارے حکمران اور ان کے پرجوش حامی قومی تعطیل کا فائدہ اٹھا کر گھر میں آرام فرماتے یا قریبی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں‘ عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنا فرض ادا کیا‘ میاں شہباز شریف نے جو مسلم لیگ کے سربراہ ہیں‘ لندن سے ایک بیان جاری فرمایا اور دیگر لیڈران کرام نے بھی اس پر اکتفا کیا‘ گئے وقتوں میں مگر ایسا نہیں ہوتا تھا‘ مسلم لیگ کے سربراہ اور ملک کے صدر یا وزیر اعظم بالعموم شاندار تقریبات میں اپنا مافی الضمیر بیان فرمایا کرتے ‘اب مگر صدر عارف علوی اور دیگر سرکاری عہدیداروں نے مزار قائد پر حاضری اور کیک کاٹ کر فرض کفایہ ادا کر دیا ‘اللہ اللہ خیر سلّا‘ لاہور میں البتہ پی ٹی آئی وسطی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری نے دس سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور دانشوروں‘ تجزیہ کاروں‘ اخبار نویسوں کو جمع کیا’’ہم سب کاقائد اعظم ‘‘ کے عنوان سے مباحثہ کرایا اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا‘ چند خوبصورت تقریبات اور بھی ہیں جن میں ایوان اقبال اور ایوان کارکنان پاکستان کی تقریبات قابل ذکر تھیں مگر یہ تو غیر سیاسی ادارے ہیں ۔موضوع بحث سیاسی جماعتوں کا رویہ ہے۔مسلم لیگ لاہور میں سالگرہ کا کیک کاٹ کر سرخرو ہوئی۔ الطاف گوہر نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ وہ کراچی کے ڈپٹی کمشنر تھے جب حکمران جماعت نے نشتر پارک میں جلسے کی اجازت طلب کی جس سے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی خطاب کریں گے‘ یہ یوم پاکستان تھا یا یوم قائد اعظم‘ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں‘ الطاف گوہر نے لکھا کہ چونکہ مسلم لیگ پہلے ہی درخواست جمع کرا چکی تھی لہٰذا میں نے اپوزیشن جماعت کو جلسے کی اجازت دیدی اس اہم دن سے ایک یا دو دن قبل اطلاع ملی کہ وزیر اعظم ڈھاکہ جا رہے ہیں میں ایئر پورٹ پر انہیں ملوں‘ میں صبح صبح ایئرپورٹ پہنچا‘ سہروردی صاحب داخل ہوئے ‘استقبالیہ قطار میں سب سے ملے اور مجھے ایک طرف لے گئے‘ کہنے لگے ڈپٹی کمشنر ! آپ جانتے ہیں کہ میں ڈھاکہ کیوں جا رہا ہوں‘ میں نے عرض کیا آپ کسی وقت بھی اپنے گھر جا سکتے ہیں مجھے جاننے کی کیا ضرورت ہے‘ فرمایا نہیں محض تمہاری وجہ سے؟ میں حیرت زدہ رہ گیا اور جرأت کر کے پوچھا میری وجہ سے؟ مگر کیوں؟ بولے تم نے حکمران جماعت کی درخواست رد کر دی‘ یہ ناممکن ہے کہ وزیر اعظم دارالحکومت میں موجود ہو اور اس اہم موقع پر گھر میں بیٹھا رہے لوگ باتیں بنائیں گے چنانچہ میں ڈھاکہ جا کر جلسہ کروں گا کیونکہ کراچی میں تم نے مشکل پیدا کر دی ہے۔ اب مگر وزیر اعظم ہوں یا مسلم لیگ کے لیڈر وفاقی اور صوبائی دارالحکومت میں موجودگی کے باوجود قائد اعظم کی سالگرہ یا یوم پاکستان کے موقع پر عوام کے سامنے آ کر قومی جذبات کی ترجمانی کرنا فضول سمجھتے ہیں ۔اخباری بیان اور ٹویٹ کی زحمت بھی ان کی مہربانی ہے ورنہ ہم کیا کر سکتے ہیں‘ کسی کو احساس نہیں کہ اگر قائد اعظم ہندوستان میں بسنے والی ایک بھیڑ کو قوم بنا کر پاکستان نہ بناتے تو وہ بھی اسدالدین اویسی ‘ فاروق عبداللہ‘ محبوبہ مفتی اور کسی دوسرے لیڈر کی طرح محبوس ہوتے یا پچھتاوے کا شکار‘ کہ انہوں نے یا ان کے بڑوں نے 1947ء میں قائد اعظم کی آواز پر لبیک کیوں نہ کہا اور متحدہ قومیت کے جال‘ مہاتما گاندھی ‘ جواہر لال نہرو ‘ابوالکلام آزاد کی شاطرانہ چال میں کیوں پھنسے؟۔ قائد اعظم کا احسان ہے کہ آج ہم آزاد وطن کے باسی ہیں اور دو قومی نظریے کی حقانیت ہے کہ صرف پاکستان نہیں ہندوستان کے مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتیں سکھ‘ دلت‘ عیسائی اور بدھ احساس ندامت سے مغلوب ہیں‘ قدر مگر ہم قائد اعظم کی کر پائے نہ پاکستان کی‘ ورنہ یہ دن اس سرد مہری کے ساتھ نہ مناتے: نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاںوالو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ’’ہندوستان والوں‘‘کی جگہ ’’پاکستان والو‘‘ پڑھ لیں۔