اسلام آباد ،راولپنڈی (وقائع نگار،مانیٹرنگ ڈیسک ) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہوجانا ایک بہت سنگین معاملہ تھا، احسان اللہ احسان فرار کے ذمے دار فوجیوں کیخلاف کارروائی ہوچکی،فرار کرانے والے اہلکاروں کیخلاف کارروائی سے جلد آگاہ کرینگے ،احسان اللہ احسان کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں،جس ٹوئٹر اکائونٹ سے ملالہ کو دھمکی دی گئی وہ جعلی تھا، لاپتہ افراد کا مسئلہ جلد حل ہو گا ، معاملے پر کمیشن نے بہت پیشرفت کی ،بھارت پاکستان مخالف شدت پسندوں کی مدد کررہا ہے ،اس کا علم افغان انٹیلی جنس کو بھی ہے ،افغانستان میں امن کیلئے مذاکرات جاری رہنے چا ہیئں ۔ غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسنگ پرسنز کمیشن کے پاس 6ہزار سے زائد کیسز تھے ، 4ہزار حل کئے جا چکے ہیں۔ہزارہ میں 11کان کنوں کے قتل سے تعلق پر چند افراد حراست میں لئے گئے ،یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں ،اس سلسلے میں مزید معلومات نہیں دی جا سکتیں کیونکہ ابھی مزید کارروائی ہونا باقی ہے البتہ اس کے متعلق بھی اہم اعلان جلد کیا جائیگا ،قبائلی علاقوں میں منظم شدت پسند تنظیموں کو ختم کردیا گیا تھا،اب شدت پسند تنظیموں میں اس علاقے میں بڑے حملے کی صلاحیت نہیں،کچھ عرصے سے تشدد کے ایک دو واقعات پھر رپورٹ ہوئے ہیں،بچے کچھے شدت پسندوں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں شروع کی ہیں،تشدد کے تازہ واقعات انہی کارروائیوں کا رد عمل ہیں ،آپ جب بھی شدت پسندوں کے پیچھے جاتے ہیں تو رد عمل آتا ہے ،فورسز کا نقصان اور عمومی طور پر تشدد میں وقتی اضافہ ہوتا ہے ،گزشتہ دنوں خواتین کی کار پر حملہ اسی سلسلے کی کڑی تھی،اب اس علاقے میں کوئی منظم گروہ باقی نہیں،مختلف ناموں سے چھوٹے موٹے شدت پسندوں کا جلد مکمل خاتمہ ہوگا، ملک میں اب دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں رہے ،حکومت پاکستان کی پالیسی ہمسایوں سے امن کا ہاتھ بڑھانا ہے ،آرمی چیف نے حالیہ بیان میں امن کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی،ہاتھ بڑھانے کا مطلب یہ نہیں کہ مشرقی سرحد پر خطرات سے آگاہ نہیں،بھارت کی تمام فوجی نقل وحرکت پر ہماری نظر ہے ،پاکستان میں شد ت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جارہی ہے ۔بھارت ان تنظیموں کو اسلحہ،،پیسے ، نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے ،پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن چاہتا ہے ،افغان امن کیلئے پاکستان سے جو ہوسکتا تھا کر چکا ہے ،طالبان پر پاکستان کا جتنا اثر ورسوخ ممکن تھا استعمال کیا،اس بات کی گواہی اب تو افغان رہنما بھی دے رہے ہیں،پاکستان نے افغان امن کیلئے اخلاص کے ساتھ ہر ممکن کوشش کی،ہمارا صرف ایک مقصد ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام ہے ،اس بات پر دھیان دینا ہوگا، افغانستان میں خلا ہر گز پیدا نہ ہو پائے ، نئی امریکی انتظامیہ افغان طالبان مذاکرات کے معاملے پر غور کر رہی ہے اور پاکستان کا اس معاملے پر یہی موقف ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے فوجی سطح پر اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان کے ٹریننگ سینٹر سعودی عرب میں موجود ہیں لیکن ان کا یمن تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سابق آرمی چیف راحیل شریف کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ وہ ابھی سعودی عرب میں اپنے عہدے پر موجود ہیں، پاکستان ایران سرحد پر باڑ لگانے کا معاملہ باہمی طور پر حل کر لیا گیا ہے ۔