وقت گزرتا ہے۔ گزرتا تو دکھائی نہیں دیتا ہے۔ کسی کی یاد میں وقت گزرنے کا اپنا الگ سے پیمانہ ہے۔ کبھی یہ پیمانہ سست روی سے اپنے نتائج بتاتا ہے اور کبھی لمحہ لمحہ ایسا عجلت میں نظر آتا ہے کہ وقت کے گھوڑے کی رفتار سمجھ سے بالا ہوتی ہے۔شاعر ہو یا غم و آلام کا مارا ہوا کوئی بچہ اپنے والدین کو یاد کرتا ہے تو نوائے دل دونوں کی یکساں ہی ہوتی ہے ؎ بربط سوز پہ مضراب الم پڑتی ہے اے خدا جب کہ جدائی کا بیاں ہوتا ہے شعبان المعظم کے آخری ایام اپنی برکات اور روحانی انوار کا خفیہ سفر کر رہے ہیں۔ بہت خاموش اور بڑے ماحول کی روحانی امانتیں اس ماہ مقدسات کی جلوہ گاہ سے عطا ہوتی ہیں۔ دین میں اعمال کا کوئی پہلو بھی تو سماجیات کے دائرے سے کبھی بھی خارج نہیں ہوا۔ بہت پہلے جب بچپنا اپنی معصوم سوچوں کو ہی دین دھرم‘ ثقافت اور دنیا کی اٹل حقیقت سمجھتا ہے۔ ہم بھی زندگی کے اس مرحلے کو ابھی تک سنبھالے ہوئے ہیں۔ میرے والد گرامی حضرت میاں جیؒشعبان کے ماہ برکت میں عبادات کا بہت زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے اور بطور خاص شب برات کی عبادات کو نہایت خشوع و خضوع سے ادا فرماتے تھے۔ ابتدائی شب میں مسجد میں احباب اور عقیدت مندوں کے سامنے اجتماعی مجلس ذکر واذکار میں مصروف رہتے اور صلٰوۃ التسبیح ادا کی جاتی تھی۔ پھر میاں جی اپنے مخصوص حجرے میں آ کر طویل نوافل کا سلسلہ شروع فرماتے تھے۔ رات کے آخر ی پہر میں طویل عربی دعائیں سر بسجود ہو کر آہوں اور سسکیوں کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ عربی دعائوں کا ترجمہ تو ہمیں آتا نہیں تھا البتہ تاثر اور تاثیر اتنی زیادہ ہوتی کہ سننے والا بحشم نم وہیں بیٹھ جاتا اور پھر ایک خاموش سکینت اپنے ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ جیسے جیسے دعائوں کا سلسلہ بڑھتا تھا کمرے میں روشنی کا حساب بھی بڑھتا جاتا تھا۔ بسا اوقات تو یوں لگتا کہ روشنی کی چکا چوند بہت زیادہ ہے‘ بیٹھنا مشکل ہو جائے گا۔ کمرہ بقعۂ نور بنا ہوتا تھا۔ ایک روز میری بڑی ہمشیرہ نے میاں جی سے پوچھا کہ یہ روشنی کہاں سے آئی ہے تو فرمایا بیٹا‘ ایسی روشنی رب کی جناب سے فرشتے لے کر آتے ہیں اور تم بھی عبادت کیا کرو‘ زیادہ سوال مناسب نہیں ہوتے۔ میا ںجی اپنے پوتوں کو خود قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ ایک آیت کو متعدد مرتبہ دھراتے یہاں تک دوران تعلیم ہی بچوں کو بہت سی سورتیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ تہجد کے وقت بیدار ہوتے تو اپنے معمول کے وظائف کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت بھی ان کا روزمرہ کا معمول تھا۔ احقرراقم چونکہ سکول میں زیر تعلیم تھا۔ میاں جی سکول کی تعلیم کی اہمیت سے پوری طرح باخبر تھے۔لیکن ان کے دل میں اولاد کی تربیت اور تربیت میں اسلامی اخلاقیات کا احساس بہت زیادہ رہتا تھا۔ لاہور کے اکثر علماء کی مجالس علیہ میں حاضری ان کا ایک معاشرتی ذوق قرار دیا جا سکتا ہے۔ اکثر کوشش ہوا کرتی تھی کہ علماء کی ان مجالس میں راقم الحروف کی شرکت کو بہت اہم جانتے تھے۔اختتام محفل پر مجھے علماء سے ملاتے تھے۔ جب کوئی بزرگ دعا کے الفاظ ادا کر رہا ہوتا تھا تو میاں جی بہت ہی انکساری سے ایک لقمہ دیتے کہ حضرت یہ دعا ضرور فرمائو کہ نذیر احمد دین کی خدمت کرے اور اس کے دل میں لالچ کبھی پیدا نہ ہو۔اسی طرح ایام حیات کا سفر جاری رہا یہاں تک کہ ایسا وقت بھی آیا جب احقر عالم اسلام کے بطل جلیل اور ملت اسلام کے مجاہد فرزندانِ بادۂ مست توحید و رسالت کی ہمراہی میں ملک کے طول و عرض کے دورے کر رہا تھا اور تحریک ختم نبوت جس میں منکرین ختم نبوت کو آئینی طور پر مرتدین اسلام قرار دیا گیا‘ ہر جلسے تک بے لوث قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ اور مجاہدملت ‘بوذروقت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازیؒ سے پہلے تقریر کیا کرتا تھا تو نوجوان کارکنان کا ایک جم غفیر بعدمیں جمع ہو کر آئندہ کے لائحہ عمل میں شرکت کے لئے اپنی خدمات صرف کرنے کا عہد کرتا تھا اور یوں قافلہ عشق و محبت کے حدی خوانوں کا ایک صالح گروہ اور جانباز جماعت تیار ہو گئی تھی اور ہر جلسے میں یہ نعرے گونجتے تھے ؎ غلامیٔ رسولؐ میں موت بھی قبول ہے جو ہو نہ عشق مصطفی ؐتو زندگی فضول ہے اس سلسلے میں لاہور میں ایک بڑا جلسہ تھا۔ احقر کو بھی خطاب کے لئے مدعو کیا گیا۔ جلسے میں جب تقریر کے لئے نقیب تقریب نے میرا نام پکارا تو نوجوان کارکنان کا جوش استقبال دیدنی تھا۔ تقریر شروع ہو چکی تھی اس دوران میاں جیؒ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ پوری توجہ سے تقریر سن رہے تھے واقف حال دوستوں نے بتایا کہ پرنم آنکھوں سے تقریر سُن رہے تھے۔ زیر لب کلمات تشکر ادا کر رہے تھے کہ تیرا شکر ہے کہ بیٹا جید علماء کی موجودگی میں دین کی حمایت میں اپنی صلاحیتیں صرف کر رہاہے۔ بڑھاپے کے عوارض جب طبیعت کا حصہ بن جاتے ہیں تو ایک تیمار دار مستقل چاہیے ہوتا ہے۔عزیز القدر پسرم اسامہ غازی کو یہ توفیق بارگاہ خداوندی سے ارزاںہوئی کہ وہ اپنے دادا کی خدمت کرے۔ اسامہ صبح سویرے اٹھ کر میاں جی کی ادویات اور دیگر سہولیات کا جائزہ لیتا اور پھر کالج روانگی سے قبل اپنی والدہ کو تمام دوائوں اور پرہیزی خوراک کی تفصیل بتا کر جاتا تھا۔ دوسری جانب حضرت میاں جی شب و روزاس کے لئے دعائیں فرماتے تھے اور ایک روز اسامہ سے فرمایا کہ میں تمہاری خدمت سے بہت خوش ہوں اور تیرے بغیر تو میں جنت میں بھی نہ جائوں گا۔ حضرت میاں جیؒ اگرچہ عالم برزخ میں خیرزازندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اپنے اہل خانہ کے لئے ان کی ہمدردانہ اور دعائوں کا سلسلہ اس طرح سے قائم ہے۔ عزیز القدر پسرم میاں سعد غازی نے اپنا ایک خواب بتایا کہ جن دنوں ہماری گاڑی چوری ہو گئی تھی تو میاں جی نے خواب میں آ کر تسلی دی کہ جو شے ہاتھ سے نکل جائے اس پر غم نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا نعم البدل مانگنا چاہیے۔ اللہ تعالی بہت جلد تمہیں نئی گاڑی عطا فرما دے گا۔خواب کی تعمیر چند ماہ بعد ہی ایک سچی حقیقت کا روپ دھار چکی تھی۔ میاں جیؒ رحمت خداوندی اور نسبت صالحین کی چادر اوڑھے قبر میں بھی قرآن شریف اور ذکر مصطفی ﷺ میں مشغول ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضور نبی کریم ﷺ کے طفیل حضرت میاں جی کے درجات میں بلندیاں عطا فرمائے اور ہم لواحقین کو ان کی روحانی وابستگی سے کبھی بھی محروم نہ کرے۔(آمین) بجا طٰحہ یٰسین۔