اس کائنات ہست و بود میں ہرانسان کو خوشی ومسرت،سکون وراحت اور تن درستی و صحت کے ساتھ ساتھ تکلیف و مصیبت، پریشانی وآفت اور بیماری و نقمت سے بھی واسطہ پڑتاہے ،اور یہ سب حالات اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں۔ جس پربندۂ مومن کو کامل یقین اور مکمل اعتماد ہونا چاہیے ۔حالات موافق وسازگار ہوں یا مخالف و ناساز گار دونوں صورتوں میں ایک ایمان والے کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے ،قرآن و حدیث میں اس حوالے سے بھرپور رہنمائی موجود ہے ۔ امام النبیین خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس حقیقت کو اپنے فرمان ذیشان میں بیا ن فرمایا۔ صحیح مسلم میں حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ۔ اوریہ شرف ومقام صرف مومن کو حاصل ہے ،اگر اسے آسودۂ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث ِخیر ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے ‘‘۔(صحیح مسلم: رقم الحدیث2999) اس روایت میں خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسندیدگی کے انداز میں مومن کے حال پر تعجب کا اظہار فرمایاہے ، کیوں کہ وہ اپنے تمام احوال اور دنیاوی اتار چڑھاؤ میں خیر و فلاح اور کامیابی ہی میں رہتا ہے اور یہ خیر صرف اور صرف مومن ہی کو حاصل ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومن کے ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی مقدر رکھا ہے ۔ اگر اسے کوئی تنگی ومصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشادگی کا منتظر اور اس سے اجر و ثواب کا امیدوار رہتا ہے ، تو یہ بات اس کے لیے باعث ِخیر ہوتی ہے ۔ اور اگر کوئی خوش کن بات پیش آئے مثلاً کوئی دینی نعمت کا حصول ہو، جیسے علم یا عمل صالح یا پھر کوئی دنیوی نعمت ملے ، جیسے مال، اولاد اور جائیدادوغیرہ تو اس پر شکر گزار ہوتا ہے ، بایں طور کہ اللہ عزو جل کی اطاعت پر کاربند رہتا ہے ، چنانچہ اللہ اس کی قدر کرتا ہے ، تو یہ بات اس کے لیے باعث ِ خیر ہوتی ہے ۔عرفاء کے نزدیک ایمان کے دوحصے ہیں: نصف صبر اور نصف شکر۔لہٰذا ہر وہ شخص جو اپنے نفس کا خیرخواہ،اس کی نجات کاطالب، اوراس کی نیک بختی کاشائق ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِن دونوں(صبر و شکر) اصل عظیم سے لاپرواہی نہ برتے ، اورنہ ان دو سیدھی راہوں سے کنارہ کشی اختیا ر کرے اوریہ کہ اللہ تک پہنچنے کے لئے اپنا سفر انہی دوراہوں پر طے کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی ملاقات کے دن خیرالفریقین (شاکرین وصابرین) میں سے کسی کے ساتھ شامل فرمادے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صبر وشکر کو ایک ساتھ ذکر فرمایا۔عرب کا قبیلہ ’سبا‘ جو اپنے مورث اعلیٰ سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام سے مشہور ہے ۔ اس قوم کی بستی یمن میں شہر’صنعائ‘سے چھ میل کی دوری پر واقع تھی۔ اس آبادی کی آب و ہوا اور زمین اتنی صاف اور اس قدر لطیف و پاکیزہ تھی کہ اس میں مچھر،مکھی،پسو،کھٹمل وغیرہ کا نام ونشان تک نہ تھا۔ موسم نہایت معتدل تھانہ گرمی نہ سردی۔ یہاں کے باغات میں کثیر پھل آتے تھے ۔ کہ جب کوئی شخص سرپر ٹوکرا لئے گزرتا تو بغیر ہاتھ لگائے قسم قسم کے پھلوں سے اس کا ٹوکرا بھر جاتاتھا۔غرض یہ قوم بڑی فارغ البالی اور خوشحالی میں امن و سکون اور آرام و چین سے زندگی بسر کرتی تھی، مگر نعمتوں کی کثرت اور خوشحالی نے اس قوم کو سرکش بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی ہدایت کے لئے یکے بعد دیگرے کئی انبیاء علیہم السلام کو بھیجا جو اس قوم کو خدا کی نعمتیں یاد دلا دلا کر عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے مگر ان سرکشوں نے خدا کے مقدس نبیوں کو جھٹلا دیا اور اس قوم کا سردار اتنا متکبر اور سرکش آدمی تھا کہ جب اُس کا لڑکا مر گیا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا اور اپنے کفر کا اعلان کردیا اور اعلانیہ لوگوں کو کفر کی دعوت دینے لگا اور جو کفر کرنے سے انکار کرتا، اُس کو قتل کردیتا تھا اور خدا عزوجل کے نبیوں سے نہایت ہی بے ادبی اور گستاخی کے ساتھ کہتا تھا کہ آپ لوگ اللہ عزوجل سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہم سے چھین لے ۔ جب سردار اور اس کی قوم کا طغیان و عصیان بہت زیادہ بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔ جس سے ان لوگوں کے باغات اور اموال و مکانات سب غرق ہو کر فنا ہو گئے اور پوری بستی ریت کے تودوں میں دفن ہو گئی اور اس طرح یہ قوم تباہ و برباد ہو گئی کہ ان کی بربادی ملک عرب میں ضرب المثل بن گئی۔ عمدہ اور لذیذ پھلوں کے باغات کی جگہ جھاؤ اور جنگلی بیروں کے خار دار اور خوفناک جنگل اُگ گئے اور یہ قوم عمدہ اور لذیذ پھلوں کے لئے ترس گئی۔قران مجید میں صبر وشکر کرنے والوں کے لیے نصیحت و عبرت کے طور پر اس واقعے کو ذکرکیاگیا۔سورۃ سبا کی آیات15سے 19تک تفصیل موجود ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ ہوں گی، اللہ تعالیٰ اسے شاکر و صابر لکھ دیتا ہے اور جس میں وہ نہیں ہوں گی، اسے اللہ شاکر و صابر نہیں لکھتا۔ جوشخص اپنے دین کے معاملے میں ایسے شخص پر نظر رکھتا ہے جو اس سے بڑھ کر ہے ، پھر اس کی اقتداء کرتا ہے ۔ اور دنیا کے معاملے میں اس شخص کو دیکھتا ہے جو اس سے کمتر حیثیت کا حامل ہے ، پھر اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس پر فضیلت عطا کی ہے ۔ (ان دو خصلتوں کے حامل شخص کو) اللہ تعالیٰ شاکر اور صابر لکھ دیتا ہے ۔ اور جو شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے کمتر (دیندار) کو دیکھتا ہے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے برتر (مال دار) کو دیکھتا ہے اور پھر جو اسے (دنیا کے مال و اسباب سے ) میسر نہیں ہے اس پر افسوس کا اظہار کرتا ہے ، تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نہ شاکر لکھتا ہے اور نہ صابر‘‘(جامع ترمذی:رقم الحدیث2512) خلاصہ یہ کہ بندہ ٔ مومن ہر حال خیروبھلائی میں ہی ہوتا ہے ، تکلیف میں صبر کرکے اور آرام کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکراداکرکے اوریہ صرف مومن کی خصوصیت ہے ۔موجودہ زمانے میں اجتماعی و انفرادی دونوں حیثیتوں سے جو سخت آزمائشیں اور مصیبتیں آرہی ہیں اور ہر کوئی حالات کا شکوہ کرتا نظر آرہاہے ،ہم ان سے عبرت حاصل کریں۔اگر ہم خدانخواستہ کسی بیماری یا پریشان میں مبتلا ہیں تو صبر و شکیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اگر عافیت و صحت کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں تومنعم حقیقی کی شکر گزاری سے ہرگز دریغ نہ کریں۔حق تعالیٰ ہمیں اس دورِ ابتلا سے نجات عطافرمائے اور عافیت کی زندگی مقدر فرمائے ۔آمین