جی میں آتا ہے کہ دیکھوں اس زمیں کو کاٹ کر مجھ ہوائے خاک پر یہ کیسے نکلے بال و پر ہیں مثال برف ہم بھی کوہقانوں میں پڑے ایک شرارہ ہی اٹھا تو اے ہوائے تیز تر یہ تو ایک سعی کا عمل ہے ۔ اس جدوجہد کے بغیر کچھ نہیں ہو گا وہی جو اظہار شاہیں نے کہا تھا اپنے ہونے کا پتہ دے کوئی شیشہ کہیں گرا دے۔ جب اپنے ہونے کا اپنے آپ کو بھی پتہ نہ چلے تو کوئی کیا کرے۔جون یاد آئے۔ بولتے کیوں نہیں مرے حق میں آبلے پڑ گئے زیان میں کیا ۔ کیا کیا جائے کہ قاصر یاد آ گئے۔ یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے بہرحال جھوٹ کے رنگ ہزار۔ سچ بولنا تو سب چاہتے ہیں مگر مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں۔ ماڑے دا کہہ کم محمد۔ یا روناتے یا نس جانا۔ ویسے ماڑا اور کمزور ہونا اور بات ہے بزدل اور کم حوصلہ ہونا دوسری بات: ہم ایک رات اگر کم جیے تو حیرت کیوں ہم ان کے ساتھ تھے جو مشعلیں جلا کے جیے ہر راکھ میں تو کوئی انگلیاں بھی نہیں پھیرتا۔اسے تو ہوا ہی اڑھاتی ہے کوئی چنگاری شاید کبھی خاکستر سے بیدار ہو جائے جس نے ہمیں اقبال حاصل کرنے کی طرف گامزن کیا اسے بھی ہم نے فراموش کر دیا کہ ہم تو خود کوئلے کی کان ہیں ہم سے کون بچ سکتا ہے ہم نہ بگولا رہے اور نہ بھنور۔ بات تو وہی شاید اس بحر میں موج نہیں رہی: یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے ہائے ریاض مجید نے کیا کہہ دیا میرادکھ یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں جیسا نہیں۔ میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں بھی۔ ادھر تو ہارے ہوئے سلاطین کا کارواں ہے۔ آپ ایک لمحے خود کو عالمی تناظر میں دیکھیں تو سہی کہ ہم کہاں پاتال میں پہنچ گئے ہیں۔ ہم اپنے نفس اور خواہشات کے قیدی ہوئے تو ہمیں خرید لیا گیا یا پھر ہماری بے خبری ہی میں ہمیں بیچ دیا گیا۔ جنہیں راستوں میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے۔ وقت رفتہ رفتہ سب کچھ اجاگر کرتا جاتا ہے اور زمین زادے جوں جوں شعور حاصل کرتے جاتے ہیں ان کی اذیت بڑھتی جاتی ہے خوش قسمت وہ ہیں جو غلامی میں بھی خوش ہیں حریت پسندی انسان کو کچوکے لگاتی ہے۔ آسائشیں اور آسودگیاں اندر سرایت کر جائیں تو انسان لڑنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ لگتا ہے کہ ہمارے اندر کچھ کجی سی آ گئی ے یا پھر کچھ فہم ہی میں خرابی ہے کہ آئینہ دیکھنے سے کترانے لگے ہیں۔ ریاست اور معاشرہ ایسے ہی استوار نہیں ہوتا۔ کچھ قوانین بنتے ہیں ایک دستور طے ہوتا ہے اس دستور میں تمام اداروں کے کردار کا کام متعین ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ادارے باہم ایک دوسرے کا احترام کریں بظاہر اس آئینی ترتیب و تشریح سے کوئی انکار نہیں کرتا مگر اپنے عمل سے اسے ردی کا ٹکڑا بنا دیا جاتا ہے ملک کی بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ سب مل کر اس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کریں مگر ہوتا کیا ہے کہ یہ سب صاحبان اختیار و اقتدار ملک کے وسائل اپنی ذاتی خوشی اور ترقی کے لئے جھونک دیتے ہیں ان کے ساتھ چلنے والے خوشامدیے اور طفیلیے نہ انہیں سمبھلنے دیتے ہیں اور نہ ان کا وجود ملک کے لئے بارور ہوتا ہے۔ جو خرابی در خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ حالات کو سنبھالنے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ معاملات حل ہونگے اور کام سنوریں گے مگر بات تو وہی کہ خود کو اس مقام پر لایا جائے کہ کوئی پتھر شیشے کے گھر کی طرف نہ آئے حضرت عبدالقادر جیلانی نے تو ایک بچے کو گڑ کھانے سے روکنے کے لئے دم نہیں کیا تھا کہ کل پر بات اٹھا رکھی کہ اس دن انہوں نے خود گڑ کھا رکھا تھا۔ خدا جانے کہ وہ کیوںقوم کو تصادم کی طرف لے کر جا رہے ہیںچوروں کے درمیان بیٹھ کر مخالفوں کو چوری پر سزا دینے کی باتیں مذاق ہی تو ہیں۔ حضور ! بڑی سیدھی سی بات ہے کہ ایک صرف فارن فیڈنگ کیس پر ہی عوام کو مطمئن کر دیا جائے ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ نہ ہو مگر اس سے مسلسل احتراز سب کو شک و شبہات میں ڈال رہا ہے۔ آخر اس معاملے کو کیوں ٹالا جا رہا ہے اگر مولانا فضل الرحمن سوال کر رہے ہیں تو جواب ضروری ہیں۔ طاقت کے ساتھ خود کو منسلک کر کے تھریٹ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ تھریٹ بھی ہر جگہ کام نہیں کرتی میں پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ کچھ شرارتی لوگ معاملے کو سلجھانے نہیں دے رہے اور جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں: یہ سمندر تو بولتے بھی نہیں جب یہ دریا نگلنے لگتے ہیں جو بھی ہے آئین کی بالادستی اور قانون کا احترام خواندہ قوموں کی نشانی ہے آمدن سے زیادہ اثاثے ہوں تو یقینا اس کی گرفت ہونی چاہیے مگر یہ سب کے لئے ہو۔ ۔ کاش آپ کو محبت اور ایثار کا شعور مل سکے جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ۔ ہمارا مسئلہ مگر عہدے کا ہے بدن کے معاملے میں روح مجروح ہو چکی ہے۔ میری یادداشت کا حصہ ہے کہ پاک فوج کا ایسا احترام آسمان نے دیکھا کہ لوگ آنکھیں تو کیا خود بچھتے جاتے تھے۔ مائوں بہنوں اوربیٹیوںنے ان کے لئے اپنے گہنے ڈھیر کر دیے تھے۔ ایسی محبت اور احترام کا کچھ بھی نعمل البدل نہیں۔ اس میں شک بھی نہیں کہ ہر مشکل وقت میں عسکری ادارہ لوگوں کی مدد کے لئے آیا۔ اب یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی کہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ فوج ان کی پشت پر ہے اصولی طور پر تو حکمران کو فوج کی پشت پر ہونا چاہیے۔ حکومت کا کام تو ہر ادارے کو سنوارنا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ حکمرانوں کو مافیاز ڈکٹیٹ کرتے ہیں سب سے آگے آئی ایم ایف ہے جو عوام کو نچوڑتا جاتا ہے اور حکومت کے استحکام کے گیت گاتا جاتا ہے ۔ کبھی قادیانیوں کا ایشو اٹھتا ہے تو کبھی اسرائیل کو منظور کرنے کا۔ عوام کا مہنگائی نے کچومر نکال رکھا ۔ قرضوں اور امداد کا کوئی حساب نہیں۔خان صاحب !خدا کے لئے اپنا کوئی ایک وعدہ ہی پورا کر دیں۔ مکمل یوٹرن دوسرے لفظوں میں تاریخی دھوکہ آپ تو اتنے سچے تھے کہ ہم قسمیں کھاتے رہے اور سارا کفارہ ہمیں پڑ گیا: یوں بھی نہیں کہ راہگزر کے بغیر تھا سارا سفر ہی رخت سفر کے بغیر تھا بات کا نچوڑ یہی ہے کہ آخر آئین کو مرکز ماننا پڑے گا۔