نیب میں پیشی پر مریم نواز کے جلوس کا قصہ کئی دن پرانا ہو گیا ع آئے بھی وہ ‘گئے بھی وہ‘ لو ختم فسانہ ہو گیا فسانہ بے شک ختم ہو گیا لیکن محب وطن ناقدین کی نقد و جرح مسلسل جاری ہے۔نفس مضمون کیا ہے‘ ایک حرف تسلی کہ ارے کچھ نہیں ہوا‘ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘مریم کو یا مسلم لیگ کو کچھ فائدہ نہیں ہوا‘ ستے خیراں نیں۔ محب وطن حلقے یہ تسلی کیسے دے رہے ہیں؟خود کو بنی گالہ کے قصر سلیمانی کو‘ یا کسی اور کو؟بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے اور حکومت کو خطرے کی بات کس نے کی؟ایک جلوس سے حکومت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟بھٹو صاحب کے خلاف 1977ء کی تحریک چلی، ملک گیر تھی۔ لگتا تھا کہ سارا ملک ہی سڑکوں پر آ گیا ہے۔ حکومت ذرا بھی نہیں ہلی۔ ٭٭٭٭ جلوس میں بڑی خبریت یہ رہی کہ پتھرائو ہوا۔ پتھرائو دو طرفہ تھا۔ پولیس جلوس پر اور جلوس والے پولیس پر پتھرائو کر رہے تھے۔ اس خبریت میں خاصی خبریت کچھ بھی نہیں تھی۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے، پولیس شیلنگ کرتی ہے‘ لاٹھی چلاتی ہے‘ پتھر برساتی ہے ،جواب میں جلوس والے بھی دو چار پتھر اچھال دیتے ہیں۔ اس بار خبریت یہ نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ مریم نواز کی گاڑی پر پتھرائو ہوا۔ بالکل نئی بات۔ پاکستان میں سیاسی لیڈروں کے ہزاروں جلوس نکلے۔ گولی بھی چلی اور پتھر بھی لیکن آج تک سیاسی لیڈر کی گاڑی پر پتھرائو نہیں ہوا۔یہ اس بار نیا ماجرا دھرا اور نئی ہی پریکٹس کی بنیاد ڈالی گئی۔جو ویڈیو کلپ گردش کر رہے ہیں ان میں نظر آتا ہے کہ جلوس کو روکنے کے لئے پولیس نے شیلنگ کی جس پر جوابی پتھرائو شروع ہوا اور پولیس نے جواب الجواب میں شیلنگ کے ساتھ ساتھ پتھرائو بھی کیا۔ مریم نواز نے کہا کہ میری جان لینے کی کوشش کی گئی اور یہ کہ نیب کی طلبی کا کاغذ اور سوالنامہ کچھ بھی نہیں تھا‘ بلاوے کا مقصد یہ تھا کہ پتھرائو کی آڑ میں واردات ڈال دی جائے۔ یعنی مریم اگر بلٹ پروف کار میں نہ ہوتیں تو سانحہ لیاقت باغ کا۔’’ری پلے‘‘ ہو چکا تھا۔ اللہ نے خیر کی کچھ گاڑی بلٹ پروف تھی کچھ جلوس بڑا تھا اور کچھ جلوس والوں کی مزاحمت غیر متوقع تھی۔ سکرپٹ تشنہ تکمیل رہ گیا۔ ٭٭٭٭ بیرونی میڈیا نے لکھا جلوس اور شو بہت بڑا تھا لیکن اصل سچ محب وطن حلقوں نے بتایا۔ایک سخت محب وطن اور غضب کے خوش بیان خوش اخلاق نے جلوس کے شرکاء کی تعداد تین سو بتائی۔ اسی شام ایک محب وطن اینکر نے تصحیح کر دی‘ فرمایا شرکا اڑھائی درجن سے زیادہ نہیں تھے۔ ان اڑھائی درجن میں سے 68گرفتار کر لئے گئے باقی کتنے بچے؟ ٭٭٭٭ بعض لوگوں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے کچھ کی نزدیک کی۔ایسا ہی معاملہ حافظے کا ہے بعض کی قریبی یادداشت خراب ہوتی ہے۔ کچھ کی دور کی۔ محب وطن حلقوں کا معاملہ یادداشت کے باب میں۔’’اختیاری‘‘ ہے جب چاہا دور کا حافظہ اچھا بنا لیا‘ جب چاہا نزدیک کا۔ جلوس کو نیب پر حملے کا نام دیا گیا۔ حملہ ہوا یا نہیں۔ اس پر الگ سے بات ہو سکتی ہے لیکن محب وطن حلقوں کا دور کا حافظہ انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا اور بیس اکیس برس پرانے واقعے کی دہائی مچا دی کہ انہی لوگوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بولا تھا۔ جب سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ ایک وزیر اعظم کو کسی کے اشارے پر برطرف کرنے پر تل گیا تھا۔ ان کا نزدیک کا حافظہ آئین کی طرح معطل رہا اور چار پانچ بار ایوان پر بھی حملہ ہوا اور ٹی وی کی عمارت انقلابیوں نے اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ سپریم کورٹ کی عمارت پر گیلی شلواریں لٹکا دی گئیں۔ ایک مولانا کا خطاب یاد ہو گا۔ ہم نے گھیرائو کر لیا ہے‘ تمام راستے بند کر دیے۔ پارلیمنٹ کا کوئی رکن اندر سے باہر نہیں آ سکتا ،باہر سے اندر نہیں جا سکتا۔ ٹی وی پر قبضے کی خبر فون پر آج کے وزیر اعظم کو دی اور مبارکباد وصول کی۔ ٭٭٭٭ حافظے کی کمزوری وزیر اطلاعات کو بھی لاحق ہو گئی۔ ایک بیان جاری فرمایا اور ایک گراں قیمت اشتہار بھی نشر فرمایا کہ عمران خاں نے عوام کے اتنے ارب بچا لیے ہیں۔ اشارہ اس رقم کی طرف تھا جو جی آئی ڈی سی کیس میں سپریم کورٹ نے صنعت کاروں کو واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔ وزیر موصوف کو یاد ہی نہ رہا کہ یہ رقم عمران خاں نے معاف کر دی تھی‘ عدالت نے واپس دلائی۔ ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ٭٭٭٭ ایک اور وزیر صاحب نے خوشخبری دی ہے کہ چونکہ بجلی کمپنیاں بجلی کے نرخ کم کرنے پر راضی ہو گئی ہیں اس لئے عوام کو سستی بجلی ملے گی۔ واقعی ؟ وزیر صاحب کو یاد نہیں رہا کہ پٹرول عالمی منڈی میں ایک چوتھائی قیمت کا رہ گیا۔ تین چوتھائی سستا ہو گیا لیکن پاکستان میں اور مہنگا ہو گیا۔ پھر مزید مہنگا ہو گیا اور اس کے بعد مزید در مزید مہنگا ہو گیا۔ وزیر صاحب کا حافظہ کام کرتا تو ان کا بیان یوں ہوتا کہ چونکہ بجلی کمپنیاں بجلی سستی کرنے پر تیار ہو گئی ہیں اس لئے ہم بجلی مزید مہنگی کرنے والے ہیں۔ ویسے بھی خاں صاحب کا سدا بہار دو سالہ اصول یہ ہے کہ نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز! ٭٭٭٭