عالمی نظام ہمیشہ سے تغیر پزیر رہا ہے اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اِس نظام کی بنیادی اِکائی ریاست ہے جس کا رویہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا بلکہ داخلی اور خارجی عوامل کے زیرِاَثر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ریاستیں اپنے وجود کی بقا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتی ہیں اور ان کا ہر عمل اِسی مقصد کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ ملکوں کی خارجہ پالیسیاں اِنہی مقاصد کے حصول کے لیے بنائی گئی سٹریٹیجی کا نام ہے۔ لہٰذا کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا تبدیل ہونا ایک قابلِ فہم عمل ہے جس سے اِستثنیٰ کسی کو حاصل نہیں ہے ،چاہے امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقت ہو طاقتیں ہوں یا پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک۔ اَمریکہ کی خارجہ پالیسی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اَپنی آزادی کے بعد سے اگلے ایک سو سال تک اس کی خارجہ پالیسی تنہائی (Isolationism) اور بین الاقوامیت (Internationalism) کے مابین پنڈولم کی طرح حرکت کرتی رہی ہے۔ البتہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے اَمریکہ نے ایک متحرک اور بنیادی کردار کی حیثیت سے عالمی سیاست کی سٹیج سنبھال لی اور اگلی پانچ دہائیوں تک دنیا نے امریکہ اور سابق سوویت یونین کے مابین سرد جنگ دیکھی۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے نے عراق اور افغانستان کے خلاف امریکہ کے یکطرفہ اقدامات کی شکل میں بین الاقوامی سیاست میں امریکی تسلط دیکھا۔ جہاںتک اَمریکہ کی چین کے بارے میں پالیسی کا تعلق ہے تو گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران، امریکہ نے چین کو ایک ایسے بین الاقوامی نظام میں لانے کے لیے مشغولیت اور ڈیٹرنس کے امتزاج کی کوشش کی ہے جو وسیع پیمانے پر امریکی مفادات اور اقدار کو برقرار رکھے، البتہ چین کے ممکنہ عروج کے خطرے کو بھی امریکی پالیسی ساز نہیں بھولے۔ چین کے عروج کے تدارک کے لیے امریکہ نے چین کے گھیراؤ کی پالیسی اِختیار کی ہوئی ہے جس کے بنیادی ستون امریکہ کا تائیوان کے ساتھ خصوصی تعلقات کا نہ صرف جاری رہنا بلکہ اِس میں زیادہ گرم جوشی کا اِظہار جس کی مثال حالیہ ہفتوں میں اَمریکی کانگرس کے نمائندوں بالخصوص اَمریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کا – چین کی دھمکیوں کے باوجود 3 اگست کو تائیوان کا دورہ ہے۔ کانگریس میں چین کے خلاف پہلے سے زیادہ شدید مخالفت وہ واحد چیز ہو سکتی ہے جس پر ڈیموکریٹس اور ریپبلکن متفق ہو سکتے ہیں، حالانکہ اِس مشترکہ تشویش نے صرف سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں گھریلو سرمایہ کاری پر ہونے والی حالیہ قانون سازی جیسا محدود معاہدہ پیدا کیا ہے کہ اَمریکہ کو کس طرح مقابلہ کرنا چاہیئے۔ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن نے (جیسا کہ میں نے گزشتہ سال انہی صفحات میں لکھا تھا) اَمریکہ اور چین کے مابین ممکنہ جنگ کے اِمکانات کا جائزہ اس پس منظر میں لیا ہے جب پہلے سے موجود طاقت ابھرتی ہوئی طاقت کو اَپنے لیے خطرہ اور چیلنج سمجھتی ہے جس کا ممکنہ نتیجہ دونوں کے مابین جنگ کی صورت میںنکلتاہے۔ کارنیل یونیورسٹی میں چین اور اِیشیا پیسیفک اسٹڈیز کی پروفیسر JESSICA CHEN WEISS (جنہوں نے اگست 2021 سے جولائی 2022 تک امریکی محکمہ خارجہ میں پالیسی پلاننگ اسٹاف پر کونسل برائے خارجہ تعلقات بین الاقوامی امور کی فیلو کے طور پر خدمات انجام دی ہیں) نے امریکہ کے اِنتہائی معتبر مانے والے پالیسی جرنل "فارن اَفیئرز" میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون The China Trap میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "چین کے ساتھ مسابقت نے امریکی خارجہ پالیسی کو ہڑپ کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکی سیاست دان اور پالیسی ساز چین کا مقابلہ کرنے پر اس قدر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ وہ ان مثبت مفادات اور اقدار کو کھونے کا خطرہ مول لے رہے ہیں جو امریکی حکمت عملی کو تقویت دینے کا باعث ہیں۔ موجودہ راستہ نہ صرف امریکہ اور چین کے تعلقات میں غیر معینہ مدت تک بگاڑ اور تباہ کن تنازعے کے بڑھتے ہوئے خطرے کو لے کر آئے گا۔ اس سے دنیا میں امریکی قیادت کی پائیداری اور امریکی معاشرے اور اندرون ملک جمہوریت کی طاقت کو نقصان پہنچنے کا بھی خطرہ ہے"۔ بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ اور اس کے شراکت داروں کو چین کی پیشکش کا ایک پرکشش متبادل فراہم کرنے کے لیے صحیح سمت میں کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسے آب و ہوا اور بھوک سے متعلق کثیرالجہتی اقدامات۔ اس کے باوجود امریکی پالیسی سازوں کے ذہنوں پر چین کے ہر قدم، منصوبے، اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کی جبلت غالب ہے۔ دونوں طرف سے زیادہ جنگی نقطہ نظر نے اِیک دوسرے کے بارے میں منفی تصور پیدا کیا ہے۔ جہاں بیجنگ کا خیال ہے کہ صرف طویل جدوجہد کے ذریعے ہی امریکیوں کو مضبوط چین کے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا جائے گا جبکہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ اسے امریکی برتری کے دفاع کے لیے چینی طاقت اور اثر و رسوخ کو روکنا چاہیے۔ نتیجہ باہمی اِعتماد کی کمی کے ساتھ ہی باہمی تعلقات نیچے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہر فریق کی اپنی حفاظت کو بڑھانے کی کوششیں دوسرے کو اپنی حفاظت کو بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ حقیقت میں امریکہ ایک ایسے جامع بین الاقوامی نظام کے احیاکے لیے کوششیں شروع کر رہا ہے جو عالمی طاقت کی تبدیلی اور اِرتقا کے باوجود اَمریکی مفادات اور اَقدار کا تحفظ کرے گا۔ یہاں تک کہ یوکرائن کی جنگ میں اَمریکی توجہ اور وسائل کا دعویٰ کرنے کے باوجود، یوکرائن تنازعہ کا وسیع اثر اس جغرافیائی سیاسی مسابقت پر توجہ مرکوز کرنے پر ہے، جسے چینی روسی ہم آہنگی سے تقویت ملی ہے اور یہ چین کے حوالے سے اَمریکہ کی خارجہ پالیسی میں نئی سمت کا تعین کررہی ہے۔