14اگست یوم آزادی پاکستان ہے ۔کل جہاں مملکت خدادادکے عوام آزادی کاجشن منارہے تھے وہیںمقبوضہ کشمیرکے مظلوم مسلمان بھی اس دن کویوم تشکرکے طورپرمناتے رہے۔یہ اس لئے کہ انکے خوابوں کی تعبیرپاکستان ہے ۔اگرچہ انکے خواب ابھی تک شرمندہ تعبیرنہ ہوئے اور1947ء سے آج تک وہ نظریہ پاکستان کی محبت میں کٹ مررہے ہیں اورہندوبنیاانہیں اس نظریے کی پاداش میں شہیدکررہا ہے ۔لیکن آگ اورخون کے دریادرپیش ہونے کے باوجودکیاآپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیرکے عوام پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی ثابت ہورہے ہیں۔یہ بات ہم پاکستان کے مقتدرحلقوں کوبہت پہلے بتاچکے ہیں لیکن وہ تذبذب کے شکار تھے۔وقت گزرتاچلاگیااورکشمیریوں نے تلواروں کے سائے میں نہ صرف پاکستان کاسبزہلالی پرچم بلندکیابلکہ یہی پرچم ان کاکفن بھی بن گیا۔تب پاکستان کے مقتدرحلقوں کویقین آیاکہ برسوں قبل کہی گئی ہماری بات سوفیصددرست ہے ۔بھارتی ظلم وجبرکی تمام انواع واقسام سہنے کے باوجودکشمیری عوام ہرسال 14اگست یوم آزادی پاکستان بڑے جوش اورجذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔اس روزوہ ایک دوسرے کو قیام پاکستان پرمبارکباددیتے ہیں اوراس خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ دراصل کشمیری عوام غلامی کی کربناکیاں اورآزادی کی نعمت عظمیٰ کوخوب سمجھتے ہیں۔غلامی کی ذلت اورآزادی کی نعمت کشمیرکی اس ماں سے پوچھ لیجئے کہ قابض بھارتی فوجی درندے جس کے گبروجوان کو اسکے سامنے ذبح کرتے ہیں ،اس خمیدہ کمروالدسے پوچھ لیجئے کہ غلامی اورآزادی میں فرق کیاہے کہ سفاک بھارتی فوجی جس کے بڑھاپے کاسہارا،اسکے سامنے گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔کشمیرکی اس بہن سے غلامی اورآزادی کے مابین تفاوت پوچھ لیجئے کہ کمینہ صفت بھارتی فوجی جس کے اکلوتے بھائی کومرغ بسمل بنادیتے ہیں ۔بلاشبہ آزادی کی قدر وہی جانیں جو اس سے محروم ہیںاورغلامی کی زندگی بسرکررہے ہیں ۔ کشمیری مسلمانوں کی حالتِ زار سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ غلامی کتنی بڑی لعنت ہے اورآزادی بڑی نعمت ہے۔برصغیرکے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں انگریزوں اور ہندوئوں کی بھیانک غلامی سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کی تھی اورآزادی کے حصول کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کو آگ اور خون کے دریا عبور کرنا پڑے تھے۔ہندواورانگریزکی مشترکہ سازش نے اسلامیان کشمیرسے آزادی کی نعمت چھین لی اورانہیں ظلم وجبرکے اندھیروں میں پھینک دیاگیا۔مگرمسلمان غلامی کی ذلت کوکب تک برداشت کرسکتاہے ۔کشمیریوں نے 1947ء سے ہی بھارتی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لئے جدوجہدشروع کی اور وہ آزادی کے حصول کے لئے آگ اور خون کے دریا عبور کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام اپنی نسلِ نو کو ہندوئوں کی اصل ذہنیت سے آگاہ کرتے رہے تاکہ وہ بھارت کی تہذیبی اور ثقافتی یلغار سے دو قومی نظریے کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہ ہوپائیں۔ انہوں نے اپنی اولادکوسمجھایا کہ آزادی کے حصول کا دارومدار اس نظریے کو حرزِ جاں بنائے رکھنے میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ 1990ء میں کشمیرکے نوجوانوںنے عظیم جثہ بھارت کوللکارااورمطالبہ آزادی کردیا۔بھارت سامراج نے کشمیری مسلمانوں کے مطالبہ آزادی پرظلم وستم کابازارگرم کردیالیکن اس کے باوجودکشمیری نے عوام اپنے موقف سے سرموانحراف نہ کیا۔کیونکہ وہ غلامی کاعذاب بھگت چکے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ آزادی ایک عظیم نعمت ہے اور آزادی کی زندگی کا ایک دن غلامی کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے - بڑی خوش قسمت ہیں وہ اقوام جو آزاد فضا میں سانس لے رہی ہیں ۔آزادی ایک ایسی بیش بہا نعمت ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے- شاید عقیدے کے بعد آزادی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی خاطر انسان اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہے- شاید ایسے ہی جذبات کے اظہار کے لیے شاعر نے کہا ہے کہ عشق آزادی بہار زیست کا سامان ہے عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے عشق پر قربان میری ساری زندگی لیکن آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے ہر دور میں انسان نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔دنیا کے نقشے پر آزاد ممالک کا نام بے پایاں کٹھنائیوں ، قربانیوں اور دکھوں کے بعد تحریر ہوا ہے۔الجزائر کے لوگ اس وقت تک منزل آزادی سے ہمکنار نہیں ہوئے جب تک بن نیلا کے بدن پر زخموں کے ستر نشان ثبت نہیں ہوئے۔ انڈونیشیا کی عوام کے لیے غلامی کی سیاہ رات اس وقت تک نہیں بدلی جب تک انہوں نے اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے لہو کے چراغ نہیں جلائے اور پاکستان اس وقت تک نقشہ عالم پر نہیں ابھرا جب تک شہروں ، بستیوں ، گلیوں اور بازاروں میں خون کی ہولی نہیں کھیلی گئی۔ اس کے لیے ان گنت مائو ں کے کلیجے کٹ کٹ کر گرے، لاکھوں عورتوں نے اپنے سہاگ اس کی نظر کر دیئے اور لاکھوں بچے یتیم ہو گئے - آزادی کی کھلی فضا ئوں میں سانس لینا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔آزادی سے قبل دو سو سال تک مسلمان انگریز کے محکوم رہے انگریزوں نے ان سے آزادی کی دولت چھین کر ان کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا۔انگریز نے اپنے دورحکومت میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے اور ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور ان کو اپنے بے پناہ ظلم و تشدد کا جس طرح نشانہ بنایا وہ ہر تاریخی شعور رکھنے والے شخص سے پوشیدہ نہیں بہرحال مسلمان 14 اگست 1947 کو انگریز کی غلامی سے آزاد ہوئے۔ ان کو یہ آزادی بہت آسانی سے نہیں ملی ان کو یہ آزادی کیسے ملی اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا اور برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں نے اس کی تعمیر و تشکیل کے لیے بیش بہا قربانیاں دیں ، در حقیقت پاکستان اسلام اور مسلم قومیت کی بنا پر معرض وجود میں آیا۔ بہرکیف! مقبوضہ ریاست جموں کشمیرمیں بڑھتی ہوئی بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد افراد شہید،ہزاروں زخمی اور ہزاروں حراستی مراکز میں سال ہا سال سے داد رسی کے منتظرہیں۔گزشتہ عرصے میں دس ہزار لاپتہ شہدا کی قبروں کی دریافت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی نشاندہی کے باوجود قابض فوج اور ایجنسیوں کے ایجنٹوںکے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں عہدوں اوراعزازات سے نوازا جا رہا ہے۔یہ سب اس لئے کہ کشمیریوں کاعزم آزادی کمزورپڑے لیکن کشمیری عوام کے جذبہ آزادی محبت پاکستان کے سامنے بھارت کاہرحربہ ناکام دکھائی دے رہاہے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بے شمار قربانیاں دینے اور بچوں کے لاشے اٹھانے کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ آج بھی پوری جرا ت کیساتھ بھارت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت کا جمہوری چہرہ سراسر دھوکا اور فریب ہے بھارت انسانیت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ امریکی آشیر باد بھارت کو کشمیر میں عبرتناک شکست سے نہیں بچاسکتی اور کشمیری عوام بھارت کے غرور کو خاک میں ملادیں گے۔ بھارت کشمیریوں کے ہاتھوں پٹ چکاہے اب دونوں پٹے ہوئے مہرے ایک دوسرے کو گلے میں بانہیں ڈال کر سہارا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو چاہئے کہ وہ خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے بھارت پر سفارتی اور اقتصادی دبائو بڑھاتے ہوئے اسے مجبور کریں کہ وہ فوجی انخلا کرتے ہوئے کشمیر یوں کو حق خودورایت دینے کا وعدہ پوراکرے۔ حکومت پاکستان کشمیر پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی بھرپور پشتیبانی کرے اور بھارتی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کو اقوام متحدہ اور اوآئی سی سمیت تمام بین الاقوامی اداروں میں بے نقاب اور کشمیریوں کے حق خودارایت کے لیے بھرپور سفارتی مہم کا اہتمام کرے۔نریندر مودی جیسا دہشت گرد قاتل ٹرمپ کے ساتھ گٹھ جوڑکرکے خطے کو جنگ کے حوالے کرنے کی سازش پرتلا ہوا ہے تاہم امریکہ اور بھارت کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر انہوں نے کسی مشترکہ ایڈوینچرکی کوشش کی تو یہ جنگ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی امن کیلئے تباہ کن ہوگی۔کشمیر کشمیریوں کا ہے بھارت جتنی جلدی یہ بات سمجھ لے اتنا ہی اس کا فائدہ ہے۔امریکہ کی طرف سے ہندوستان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے اور اس کے ساتھ نیوکلیئر معاہدوں پر پاکستانی حکمرانوں کی خاموشی ناقابل فہم ہے۔انڈیا ایک جارح ملک ہے جو کشمیر میں قتل عا م کر رہاہے۔ بھارت کی آٹھ لاکھ افواج نے کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر غلام بنارکھاہے۔لیکن فوجی بربریت کے باوجودوہ کشمیریوں کوپاکستان سے ملنے سے بازنہیں رکھ سکتا۔