ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ دنیا رواں دواں تھی۔ منزل کی فکر سے بے نیاز، بگٹٹ دوڑے چلی جا رہی تھی۔ پھر اچانک، جیسے کسی نے سِحر پڑھ کر، اس پر پھونک دیا۔ چلتے ہوئے کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ دوڑنے والے تھم کر رہ گئے۔ انسان، اگر اپنے انجام سے آگاہ ہو جائے، تو ہر قدم، صرف حقیقت کی جانب اْٹھائے! اس شے کی طرف بڑھنے کا فائدہ ہی کیا، جو مصنوعی ہو، عارضی ہو اور دلدل کی طرح، پھنساتی ہی جائے! فارسی کے کسی استاد شاعر نے کہا ہے ماز آغاز و ز انجام ِجہان بی خَبَریم اول و آخر ِایں کْہنہ کتاب، افتاد ست (دنیا کی ابتدا اور اخیر سے ہم بے خبر ہیں کہ اس فرسودہ کتاب کا، پہلا اور آخری حصہ، غائب ہے) یہی بات، اکبر نے، کمال بلاغت کے ساتھ کہی ہے۔ نہیں معلوم، منزل ہے کدھر؟ کِس سمت جاتے ہیں؟ بپا ہے قافلے میں شور، ہم بھی غْل مچاتے ہیں منزل کے تعین کے بغیر، یہی ہونا تھا اور یہی ہو رہا ہے! کورونا وائرس نے، کھوٹے اور کھرے کو، جْدا کر کے دکھا دیا ہے۔ خْدا ترس لوگ، اس آپا دھاپی کے دور میں بھی، مصیبت زدوں کی مدد، ہر عْنوان کر رہے ہیں۔ یہ منظر کسی بھی مْلک، کسی بھی شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مگر نفع خوروں کی ہوس بھی، پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ جن اشیاء کی مانگ کچھ خاص نہ ہوتی تھی، طلب بڑھنے پر، بازار سے غائب کر دی گئی ہیں۔ مثلا، جراثیم کْش لوشن، ڈیڑھ دو ڈالر میں مِل جاتا تھا۔ اب یہ دس ڈالر میں بھی دستیاب نہیں ہے! بازار، جیسے کہ ہم نے پائے ہیں، چلتے ہی طلب اور رسد کے اصول پر ہیں۔ مگر ان میں دکان کرنے والوں کو تو انسان ہونا تھا۔ ایسا کیوں نہ ہو سکا؟ یہ بھی عجیب تماشا ہے کہ ڈاکٹروں کی جان توڑ محنت پر، دنیا کا طاقت ور ترین آدمی، پانی پھیر رہا ہے۔ جن حفاظتی تدابیر پر، پوری امریکن قوم کو آمادہ کرنا تھا، انہیں خود امریکن صدر جھْٹلا رہا ہے۔ ستم پر ستم یہ کہ موصوف، اب دوائیں بھی خود تجویز کر رہے ہیں! جی ہاں! ذکر "غیر مہذب" قوموں میں سے، کسی گنوارو فرد کا نہیں، دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم کے سربراہ کا ہے! ہم لوگ "دیسی حکیموں" کے ٹوٹکوں سے عاجز ہیں، پر یہاں تو حکمت کا خزانہ لْٹایا جا رہا ہے! موصوف کے دماغ پر، صدارتی انتخاب، بے طرح سوار ہے۔ وہ کسی بھی طرح، انتخاب سے پہلے پہلے، ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ انہیں کچھ پروا نہیں کہ ان کی تجویز کردہ دوائوں سے، کتنی ہلاکتیں، کس قدر تباہی ہو کر رہے گی۔ اور اگر یہ سب، نیک نیتی سے کیا جا رہا ہے، تو "خزانے کے سانپ" سے مختلف نہیں ہے!ا ہلاکت خیز ہے اْلفت مری، ہر سانس خونی ہے اسی باعث، یہ محفل دل کی، قبروں سے بھی سونی ہے اسے زہریلی خوش بْوئوں کے رنگیں ہار دیتا ہوں میں جس سے پیار کرتا ہوں، اسی کو مار دیتا ہوں …………… ایک نادیدہ کرم فرما کی وفات! کہا جاتا ہے کہ سائنس کی ترقی نے، فاصلے گھٹا دیے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مادیت پرستی نے، اپنوں کو بھی بیگانہ کر دیا ہے! "ترقی" کی کیفیت یہ ہے کہ ہزارہا میل دور بیٹھے اجنبیوں سے بھی، آدھی کیا، پونی ملاقات ہو سکتی ہے۔ پونی اس لیے کہ کانوں میں آواز پڑنے کے ساتھ، آنکھیں بھی متحرک تصویر دیکھ لیتی ہیں۔ گو دل کی کلی، اس پر بھی پوری طرح نہیں کھلتی۔ ع کہاں تصویر میں نکلے، جو ارماں میرے دل میں ہے! تنزل کی انتہا یہ ہے کہ ہمسایوں کے حالات سے، ہمسایے واقف نہیں ہیں۔ قریبی عزیزوں میں بول چال بند ہے۔ خْون کے رشتوں سے بڑھ کر، اہمیت اب روپے پیسے کی ہے۔ خوش بختی ہی کہنا چاہیے کہ ایسے بزرگ آج بھی، کہیں کہیں ہی سہی، موجود ہیں، جن کے وجود سے، پْرانی وضع داریاں، اب تک قائم ہیں۔ یہی بزرگ، زمین کا نمک ہیں! میرے کرم فرمائوں میں بیشتر، عْمر میں مجھ سے دْگنے، یعنی اسّی سال سے اوپر ہیں۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں، یہ خاکسار جہاں بھی رہا، بچپن کے دوستوں یا دو تین دیگر عزیزوں کے سوا، نیازمندی ہمیشہ انہی بزرگوں کے ساتھ رہی۔ انہی میں ایک، آنٹی مونا میر بھی تھیں۔ مرحومہ، مشہور شاعر ریاض خیر آبادی کے خاندان میں سے تھیں۔ آزادی کے بعد، تقریبا یہ پورا خاندان، پاکستان آ گیا۔ یہیں مونا میر صاحبہ کا بیاہ، سندھ کے مشہور تالپور خاندان میں ہوا۔ یْوپی سے وہ سندھ میں آئیں تھیں اور پھر شوہر کے ساتھ، ان کی آخری ہجرت، امریکا میں لے آئی۔ آنٹی بہت پڑھی لکھی اور صاحب ِتصنیف تھیں۔ ان کی کتاب کا نام ہے "محمد ص کا ذکر وَیدوں اور پْرانوں میں"۔ ویدوں کی طرح، پْران بھی ہندوئوں کی مقدس مذہبی کتابیں ہیں۔ مونا میر صاحبہ نے ان دونوں کا جائزہ، اچھی طرح، چھان پھٹک کر لیا ہے۔ کتاب میں انہوں نے تفصیل سے، ہنود کے اصلی عقائد سے، ثبوت پیش کیے ہیں۔ اس کتاب کا آخری نسخہ بصد محبت و شفقت، انہوں نے مجھے بھیج دیا تھا۔ فیس بک پر وہ بہت متحرک رہتی تھیں۔ بلکہ ان کی ساری دنیا سمٹ سمٹا کر، اس "اعتباری دنیا" تک محدود ہو گئی تھی۔ میری ہر پوسٹ پر، وہ تبصرہ کرتی تھیں اور بہت دل بڑھاتی تھیں۔ اساتذہ کے وہ شعر، جو اچھے خاصے پڑھے لکھوں کے بھی سروں پر سے گْزر جاتے، ان سے داد پاتے۔ چند ہفتے قبل، انہوں نے فیس بک کے ذریعے، پیغام بھیجا تھا کہ ہمارے بزرگوں میں، ایک مجذوب ہوتے تھے مقبول میاں۔ آزادی سے چند برس پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گھر میں سے دو تین لوگ مقبول میاں کے پاس گئے۔ گھر واپس آ کر میری والدہ نے بتایا کہ بقول ِمقبول میاں، پاکستان یہیں بنے گا۔ یہ لکیر، یو پی سے لے کر، بنگال یا آسام تک کھنچے گی اور بالآخر، یہ پورا ٹکڑا پاکستان ہو گا۔ آنٹی نے یہ تحریر، مودی کے ظلم و ستم اور کشمیریوں کی جد و جہد کے تناظر میں بھیجی تھی۔ آنٹی کا انتقال اور تدفین، دونوں ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں ہوئے۔ ہجرت انسان کرتا ہے یا یہ مٹی کی کھینچ ہوتی ہے، جو اس سے جنم بھومی چھْڑا کر، قبر تک لے ہی آتی ہے؟ لیکن اس سے آگے کی بات یہ ہے… ع کہ شکل ِظاہر جو دیکھتے ہو، ہمارا پرتو ہے، ہم نہیں ہیں اور عا"ہم بھی" آگے چلیں گے دَم لے کر