اپنے ہونے ہی کا یقین آئے وہ جو ملنے کو خود کہیں آئے رونے دھونے کا اہتمام کرو شام آئی ہے وہ نہیں آئے جی ایک شعر اور یوں تو نکلے تھے ساتھ اپنے سبھی۔ہاں مگر لوٹ کر ہمیں آئے اب اس میں کوئی تعلی نہیں ہے۔وہ جو واپس نہیں آئے۔ ان کی منزلیں یقینا ابھی باقی ہیں۔ سب سے پہلے میں آپ کے ساتھ ایک نہایت خوبصورت بات شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ محبت کے باب میں ایسی بات ایک اضافہ نہیں تو انمول ضرور ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر ناصر قریشی صاحب جو ایک مشہور سرجن ہیں اپنی نواسی کے حوالے سے بتانے لگے کہ وہ ان کی سب سے پیاری دوست ہے۔وہ کبھی منی سی چند برسوں کی نواسی جسے اچھا لگتا ہے کہ جب اس کے نانا ناشتے سے پہلے انسولین کا انجکشن لگائیں تو وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کے ساتھ ان کی مدد کرتی ہے۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے یہ بتا کر ہمیں بھی جذباتی کر دیا کہ اب کے وہ لندن سے آئی تو اسی طرح میرے پاس آ گئی جب میں انسولین کا انجکشن لگانے لگا تو اس نے باقاعدہ اسی طرح ڈبیا کھولی اور انجکشن لگانے کے لئے دیا۔ میں نے یونہی مذاق سے انجکشن لگاتے ہوئے ہائے‘ اوئی کیا یعنی دکھاوا کیا کہ جیسے درد محسوس ہوتا ہے نواسی پریشان ہو گئی اور کہنے لگی نانا ابو اگر آپ کو انجکشن سے درد ہوتا ہے تو آپ ایسے کریں کہ یہ انجکشن مجھے لگا دیا کریں۔ مجھے راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ اپنے دکھ مجھے دے دو یاد آ گیا ۔ سچ مچ بچے کتنے پیارے ہوتے ہیں وہی شفیق الرحمن نے کہا تھا کہ بچے بہت پیارے ہوتے ہیں خامی ان میں صرف یہی ہے کہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ایک بچی سے ایسے ردعمل کی توقع نہیں کی جا سکتی مگر پیار تو بچہ بھی نہیں چھپا سکتا۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ بچے کے سامنے محتاط رہا کریں کہ ان کا مشاہدہ بڑوں کی نسبت زیادہ عمیق ہوتا ہے۔ اصل میں ان کے ذھن کی سلیٹ ابھی صاف ہوتی ہے اس پر آپ جو چاہیں ثبت کر دیں بچہ تو آپ کی نقل کرے گا اور یہ نقل بھی اصلی ہو گی ۔ ہمارے پیارے دوست مرزا غلام علی صاحب جوکہ انتہائی سلجھے ہوئے پروفیسر ہیں ایک مرتبہ دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے قریب ہی ان کے دو فرزندان بیٹھے تھے ایک سات سال کا ہو گا تو دوسرا ایک آدھ سال بڑا۔بڑے نے چھوٹے سے کہا یار کپ دھو دو۔چھوٹا تڑاخ سے بولا۔میں کوئی ابو ہوں مرزا صاحب غصے میں غرائے یہ بکواس کر رہا ہے دوستوں نے کہا بچہ جھوٹ نہیں بولتا اور ان کی تو تربیت بھی آپ نے کی ہے۔ویسے اگر چھوٹے پر تربیت کا اثر ہوتا تو کپ دھو دیتا۔خیر بچے بچے ہیں پروین شاکر یاد آ گئی: جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے ابھی ایک پوسٹ میں جاوید اکرام نے ہماری توجہ دلائی کہ بچوں کو نمبروں کے چکر میں نہ ڈالیں ان پر اپنی پسند اور ناپسند نہ تھوپیں ان کی فطری گروتھ ہونے دیں۔ویسے کمال ہے میرے والد نصراللہ شاہ جو ساری عمر استاد کے درجے پر رہے۔ کہتے تھے کہ چھ سال سے پہلے بچے کو سکول ہرگز نہ بھیجیں اسے فطرت سے ہم آہنگ رکھیں۔ اس کے ذہن و بدن کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں مگر ہم تو اس کے سر پر اپنی پسند کا قلبوت ڈال دیتے ہیں اور نتیجتاً وہ دولے شاہ کے چوہے بن کر رہ جاتے ہیں ہاں آپ ان کی تربیت بے شک سائنسی انداز میں کریں جو ٹیلنٹ ہوتا ہے وہ ایک دن سامنے آ جاتا ہے۔ میں ایڈیسن کی مثال دیتا ہوتا ہوں کہ اس کے والدین نے اسے پڑھانے کے کیا کیا جتن نہ کئے مگر یہ بچہ نارمل نہیں۔ڈرائنگ کرتا رہتا ہے اور وہ بھی زمین پر۔وہ غلط بھی تو نہیں کہتے تھے کہ وہ سات سال کی عمر میں مرغی کے انڈوں پر بیٹھ گیا تھا۔ماں نے دیکھا تو کہا یہ کیا کر رہے ہو سات سالہ بچے نے کہا I want to see والدہ نے ایک تھپڑ لگایا کہ چلو اٹھو وگرنہ وہ تو بچے نکلنے تک بیٹھا رہتا۔اسی ایڈیشن نے سب سے پہلے ایک سائیکل والے کے ساتھ شرط لگا کر ایک گجٹ بنایا کہ اگر یہ مشین پٹہ چلانے پر نہیں بولے گی تو وہ سائیکل والے کو شہد کا پیپا جرمانہ دے گا۔ پھر کیا تھا کہ ان کا بولا ہوا فقرہ جب پٹہ گھمانے سے ہوا میں بلند ہوا تو وہ ناچنے لگے بعد ازاں اسی نے بلب بھی ایجاد کیا جس کی روشی میں میں لکھ رہا ہوں: کہہ رہا تھا وہ اعتماد کے ساتھ ہم جیئیں گے تو روشنی ہو گی والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان کی بامقصد سرگرمی میں ان کا حوصلہ بڑھائیں۔ان کے کام میں دلچسپی لیں۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو آپ نہیں بن سکے وہ کچھ بچوں کو بنانا چاہیں ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ان کو اچھے برے کی تمیز سمجھائیں۔بعض اوقات آپ کے بچے اپنے سوال سے آپ کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔اسے مطمئن کرنے کے لئے آپ کو تردد کرنا پڑتا ہے۔بچے کے ساتھ مکالمہ کریں یقیناً آپ کے لئے بھی نئی راہیں نکلیں گی۔ ایک روز میرا چھوٹا بیٹا عزیر پوچھنے لگا کہ پاکستان کا قومی جانور مارخور کیوں ہے۔میں نے کچھ سوچا تو میرے ذھن میں ایک بات آ گئی میں نے کہا بیٹا یہ جو مارخور ہے یہ سانپ کو مار کر کھا جاتا ہے۔بھارت کا قومی جانور کوبرا ہے اس لئے اس کے مقابلے میں مارخور ہی ہو گا۔وہ سن کر بہت خوش ہوا۔ ویسے کمال ہے کہ ترکی کا قومی جانور بھیڑیا ہے۔ویسے کہتے ہیں بھیڑیا شیر سے زیادہ دلیر ہوتا ہے۔میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی مگر نہیں بدل سکا چلیے بچوں کی بات ہی سہی کہ ورڈز ورتھ نے کہا تھا child is a father of man یہ الگ بات کہ کچھ بچے بڑے نہیں ہوتے یعنی بڑے ہو کر بھی بچے رہتے ہیں۔ خاص طور پر وہ بگڑے ہوئے بچے جو اپنی اور دشمن کی پہچان بھول جاتے ہیں۔