یہ بات بہت افسوسناک ہے کہ وہ بڑا سیاست دان نہیں بن سکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح افیون کھانے کی عادت نے کولرج کی قوت تحریر کو تیس برس کی عمر میں تباہ کرڈالا تھا اسی طرح ہمارے ممدوح جناب منا بیمار محلے میں چند شرپسندوں کے خلاف تین سال تک اتنا لڑے کہ اب بدن میں سکت نہیں۔ ہو سکتا ہے کسی دن موصوف اسمبلی نگر کے کوڑے دان پر پڑے دکھائی دیں۔ منا بنیادی طور پر ان پڑھ آدمی ہے لیکن جو کوئی اسے جاہل کہنے کی جسارت کرتا ہے وہ پھر اس کا بیری ہو جاتا ہے۔ منا بیمار چند ماہ پہلے منا کریک ہوا کرتا تھا کچھ روز وہ منا بھائی بھی بنا رہا اس سے پہلے وہ اپنے نام کے ساتھ منا جٹ بھی لکھا کرتا یہ ان دنوں کی بات ہے جب اکثر فلموں کے نام مولا جٹ، وحشی جٹ، جٹ دا کھڑاک جیسے ہوا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری اسے کھینچ کھانچ کر حلقے کے اجلاس میں لے گیا۔ سیکرٹری اس کے زیادہ بولنے سے کافی تنگ تھا لہٰذا وہ اسے ان لوگوں کی محفل میں لے گیا جو کسی کوبولنے ہی نہیں دیتے۔ یہاں جا کر وہ چپ کیا ہوتا سیکرٹری کی پریشانی یہ کہہ کر اور بڑھا دی کہ ’’آج سے میرا نام منا اداس ہے اور میں شاعر ہوں۔‘‘ منا سیاست سے عشق کرتا ہے۔ وہ سیاست کو انسانی خدمت، قوم کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ اور عبادت ہرگز قرار نہیں دیتا، اس حوالے سے وہ خاصا عملیت پسند ہے۔ وہ سیاست کو ذاتی کاروبار کے فروغ کا ذریعہ، علاقے میں رعب داب کا وسیلہ اور لوٹ مار کی مراعات حاصل کرنے کے ہنر کا درجہ دیتا ہے۔ وہ ایم پی اے یا این این اے بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ جب سے نئی جمہوریت آئی ہے وہ روز ارکان اسمبلی کو سپیکروں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتے دیکھ کر اچانک سپیکر شپ کے سپنے دیکھنے لگا۔ تدبیر پر وہ تقدیر سے زیادہ بھروسہ کرتا ہے اسی لیے تدبیر کے طور پر اس نے اپنے نام کے ساتھ خود ہی ’’سپیکر‘‘ کا اضافہ کرلیاتھا۔ ان دنوں اسے احساس ہوا کہ خاص قسم کا بیمار بنا جائے تو مقدمات اورسزائوں کے باوجود ہسپتال میں ریاست کا داماد بن کر رہا جا سکتا ہے۔ منا بیمار عوام کے دکھ درد میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک شادی سب سے بڑا دکھ ہے اسی لیے وہ جنازہ تو چھوڑ دیتا ہے کسی کی شادی میں شرکت سے کبھی محروم نہیں ہوتا۔ غلام احمد فرقت کا کوروی کے ’’اعتراف شکست‘‘ میں شامل جملوں کو منا سپیکر پر فٹ کیا جاسکتا ہے کہ وہ تمام ایسی محفلوں اور مجالس سے بے لوث عقیدت رکھتا ہے جن میں لنگر کا وافر اور عمدہ اہتمام ہو۔ وہ میلاد اور چہلم کی محفلوں میں عین اس وقت شریک ہوتا ہے جب مولوی صاحب دعا کے اختتام پر ’’صلی اللہ علی خیر خلق محمد وآلہ واصحابہ وسلم‘‘ ادا کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے مذہبی عقائد کو بھی دوسروں سے بلند اور برتر سمجھتا ہے اس لیے پھلیاں، چنے، نان، حلوہ اور سادہ چاولوں والی چھوٹی موٹی اور نچلے طبقے کی محافل میں شرکت سے گریز کرتا ہے جبکہ بریانی، کھیر اور برفی دودھ والی محفلوں میں شریک ہو کر تمام دن ’’میرے بھائی کا حصہ‘‘ لینے والوں کی شکل بنانے کی مشق میں مصروف رہتا ہے۔ بے ایمانی کو ہمیشہ ننگ انسانیت سمجھتا اور الحمدللہ اب بھی ایسا ہی سمجھتا ہے مگر لنگر لیتے وقت اگر وہ ایک ہاتھ براہ راست پھیلا کر دوسرا ہاتھ کسی کی بغل سے نکال کر پابندی سے دو حصے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا مقصد محض زیادہ سے زیادہ تبرک حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ دھوکہ دہی یا فریب۔ اس کا خیال ہے کہ زیادہ تبرک کھانے سے دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ راہزنی، جھوٹ، مکر و فریب، دھوکہ دہی جیسے سفلے اور پست جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔ چہرے پر شگفتگی، خون میں بالیدگی، ہاتھ پائوں میں چستی، کام کاج میں پھرتی، آنکھوں میں چمک اور اعضاء میں نمو پیدا ہو جاتی ہے۔ آپ ہی انصاف کریں کہ اس صورت میں دوبار تبرک ہڑپ کرنا کیا گناہ ہوگا؟ منے کو سیاست نہیں آتی۔ اس نے کبھی پنڈت چانکیہ، افلاطون، میکیاولی تو کیاروسو اور نوم چومسکی تک کا مطالعہ نہیں کیا۔ جب اس نے سیاست شروع کی تو اہل سیاست بڑے ناراض ہوئے۔ انہوں نے شور مچا دیا کہ منے کو سیاست نہیں آتی، بند کرو، سیاست بند کرو، وہ سچ ہی کہتے تھے مگر منا سیاست کرتا رہا۔ اس نے سیاست میں الگ ہی اقدار اور اپنے ہی انداز گھڑ لیے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ بڑا ہوشیار سیاستدان ہے۔ منے نے سیاست کر کے سیاست پر کوئی احسان نہیں کیا نہ ہی خدمت کی ہے الٹا سیاست نے اس پر احسان کیا ہے، اسے اہم بنا دیا ہے اب لوگ اس سے ڈرتے ہیں، خوف کھاتے ہیں جس راستے پر اس کی بڑی سی جیپ آ رہی ہو وہ ویران ہو جاتا ہے۔ وہ جس محفل میں بیٹھا ہو وہاں کوئی اونچی آواز تو کیا دبی دبی آواز میں بھی نہیں بول سکتا۔ وہ دل میں ٹھانے پھرتا ہے کہ اگر کسی نے اس کی موجودگی میں عمران خان بننے کی کوشش کی تو اس گستاخ کے ہونٹ سینے کا حکم دے گا جس طرح ملک عزیز کی جیلوں میں بعض اوقات قیدی کے لب سی دیئے جاتے ہیں۔ مجھے منے سے خوف آنے لگا اسے جانے ابھی تک جنرل پرویز مشرف سے متاثر ہونے کا خیال کیوں نہیں آیا یا پھر اگر اسے ضیاء الحق مرحوم سے ہی کسی روز عقیدت ہو گئی تو جانے وہ اپنے نام کو کیا روغن کردے اور پھر اس نئے نام کی دھاک بٹھانے کے لیے کس طرح کی سفاکی پر اتر آئے؟ سروسز ہسپتال میں میاں نوازشریف کے گیسٹ روم کا دورہ کرنے والے بعض دوستوں کی فرمائش پر پنجابی غزل کے چند اشعار پیش ہیں: بندیاں اینے سورج چاہڑے دھپ نے کھالئی ساری چھاں خورے کیہڑا بی لا بیٹھے محل اگے کنکاں دی تھاں اڈ دی دھوڑتے شام دا ویلا پنڈ دا راہ تے میری ماں اوس پڑھایا ذات بھلا دے میں پکایا میں وی ہاں