اللہ ان پہ رحم کرے، صداقت شعاری کی توفیق عطا کرے کہ دائم آدمی دو کشتیوں میں سوار نہیں رہ سکتا۔ دائم دہرا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ شہباز شریف ایک نادرِ روزگار آدمی ہیں۔ان کی شخصیت کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو : ہمیشہ،ہر حال میں، ہر قیمت پر وہ اپنا تاثر مثبت رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یعنی یہ کہ غیر معمولی صلاحیتوں کا ایک صاف ستھرا آدمی۔ شدت سے یہ فکر انہیں لاحق رہتی ہے کہ ان کے حامیوں میں ایک ذرا سی بدگمانی بھی پیدا نہ ہو۔ میڈیا ان کی تصویر خراب نہ کر دے۔ ہمیشہ یہ جملہ دہراتے ہیں کہ انہوں نے کبھی ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ اب کی بار تو حد سے گزر گئے اور یہاں تک کہہ دیا: میری موت کے بعد بھی اگر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو مجھے لٹکا دیا جائے۔ یہ عباسیوں کا عہد نہیں کہ امویوں کی قبریں کھود ی جائیں۔ یہ برطانیہ میں کرامویل کے بعد کا دور بھی نہیں کہ لاشوں کی نمائش کی جائے۔ ہم پاکستانی یوں بھی صدیوں سے ملوکیت اور جاگیردار ی کے خوگر ہیں۔ ہمارا صدر، وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلیٰ نہیں بلکہ بادشاہ ہوتاہے۔ قوم کے اجتماعی لاشعور میں یہ احساس بہت گہرا ہے کہ بادشاہوں اور شہزادوں کو من مانی کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے قومی مزاج میں بہترین حکمران کا تصور ایسے سلطان کا ہے، جو خلقِ خدا پہ عنایات کرے۔ ملک اس کا ہے، زمین اس کی ہے، باشندے اس کے ہیں۔ اگر وہ کچھ دے دے تو اس کی عنایت۔ اگر نہ دے تو جھولی پھیلا کر استدعا کرنی چاہئیے، رحم کی بھیک مانگنی چاہئیے۔ یہی وجہ ہے کہ بہترین تعلیم اور بہترین تربیت سے گزرنے والے ذہین ترین سرکاری افسر بھی شاہی خاندانوں کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتے، حتیٰ کہ ارکانِ اسمبلی اور وزراء کرام بھی۔ اہمیت اس کی ہے، جس کی پشت پر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا ہاتھ ہے۔جسے پیا چاہے وہ سہاگن۔صحافت میں بھی شریف خاندان کا معیار یہی ہے۔ کچھ لاڈلے‘ کچھ مسترد۔ لاڈلے کروڑ پتی ہو گئے اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ بے معنی ہے، حتیٰ کہ کابینہ بھی۔ وہی چند آدمی اہمیت کے حامل ہیں، بادشاہ کا اعتماد جنہیں حاصل ہو۔جیسے شریف حکومت میں اسحق ڈار اور رانا ثناء اللہ۔ خان صاحب کے اقتدار میں زلفی بخاری۔ اس حال میں بھی کہ سعودی حکومت نے اس شخص کو ساتھ لانے پر ناگواری کا اظہار کیا۔ رانا ثناء اللہ اس کے باوجود محبوب تھے کہ ان کی کم فہمی اور ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن میں تصادم ہو ااو ر حاملہ خواتین سمیت درجنوں زندگیاں موت کے گھاٹ اتر گئیں۔ اپنے خاندان کے علاوہ زرداری صاحب کو یوسف رضا گیلانی عزیز تھے۔ اس کے باوجود کہ سیلاب زدگان کے لیے دیا گیا بیگم اردوان کا ذاتی ہارچرا لیاتھا۔ واپس کرنا پڑا تو رتّی برابر شرمندگی ہو ئی نہ پارٹی میں ان کی اہمیت میں کوئی فرق واقع ہوا۔ سب جانتے ہیں کہ زرداری صاحب ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ڈیلر کے شراکت دار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ شریف خاندان نے بھی اربوں روپے کا فائدہ ان سے اٹھایا۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خاں اپنے ذاتی دوستوں کے باب میں نیب کا ہاتھ حتی الامکان روکے رکھتے ہیں۔تحقیقات سے پہلے ہی خسر و بختیار اور ان کے بھائی کی بریت کا آنجناب نے اعلان کر دیا۔چینی سو روپے اور آٹا ستر روپے کلو بکنے لگا مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ جہانگیر ترین اور علیم خان پر عتاب کے اسباب دوسرے تھے۔ کے الیکٹرک کے سربراہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وزیرِ اعظم سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔ ممکن ہے مبالغہ آرائی کے مرتکب ہوں۔ واقعہ مگر یہی ہے کہ بجلی کمپنی کراچی کے شہریوں کا خون پی رہی ہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے سوا بھرپور احتجاج بھی کوئی نہیں کرتا۔ شہباز شریف کے دور میں کم از کم ایک درجن ایسے واقعات ہوئے کہ مسلم لیگی لیڈر اور ارکانِ اسمبلی پر جنسی جرائم کے الزامات عائد ہوئے۔خادمِ پنجاب ایسے ہر موقع پر پوری شدت سے بروئے کار آئے۔ ہر بار کارروائی کا حکم صادر کیا لیکن کارروائی کبھی نہ ہوئی۔ برائے نام بھی نہیں۔ اس کالم اور اپنے پروگرام میں اس قماش کی شخصیات کا نام لینے سے حتی الامکان گریز کیا۔ فرمائش پر مگر یہ فہرست چھاپی جا سکتی ہے۔ شہباز شریف کی شخصیت کے کچھ پہلو تو پہلے ہی واضح ہیں۔ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور اپنے بھائی کو شاد رکھنے کی انہوں نے کوشش کی۔ کامل تیس برس تک اور اکثر اس میں کامیاب رہے۔ ایک انتھک آدمی۔ جس چیز کا تہیہ کر لے، وہ کر گزرتا ہے، خواہ وہ ذاتی زندگی ہو یا اجتماعی۔ لاہور میں میٹرو بسوں پر الگ سے ساٹھ ارب روپے برباد کرنے اور تین سو ارب روپے مالیت کی اورنج ٹرین مسلط کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ انہیں مگر یقین تھا کہ اس طرح شہرِ لاہور کی نشستیں ان کے ہاتھ میں رہیں گی۔ شہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ملتان اور راولپنڈی سمیت چار پانچ سو ارب روپے برباد کیے۔ ہر سال اقساط ادا کرنا ہوں گی۔ پچیس تیس ارب روپے سالانہ زرِ اعانت اس کے علاوہ۔ پرویز الٰہی ان سے بدرجہا بہتر ایڈمنسٹریٹر تھے۔ 15 کی تو میاں صاحب خود بھی تعریف کیا کرتے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے‘ مقامی ٹرین کا جو منصوبہ بنا، اورنج ٹرین کے مقابلے میں ہر لحا ظ سے اچھا تھا۔ 0.25 فیصد سود۔ 2012ء میں مکمل ہو جاتی۔ اس کے تحت ریلوے کی زمین پر بڑے بڑے کاروباری مراکز وجود میں آتے۔ خسارہ ہوتا بھی تو برائے نام۔ قرض سود کے بغیر تھا۔ 0.25 فیصد کوئی سود نہیں ہوتا۔ شہباز شریف نے روک دیا۔ پھر اورنج ٹرین کی بنا ڈالی، معلوم نہیں، جو کب مکمل ہوگی۔ برق رفتاری سے کام ختم کرنے کے جنون میں اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور گاہے کام ادھورا رہ جاتاہے۔بچت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے‘ صرف ٹرین کے منصوبے میں ملک کے 200ارب روپے برباد کر دیے۔ شہباز شریف دوسروں کو داد پاتے نہیں دیکھ سکتے۔ پرویز الٰہی کے دور میں شروع ہونے والے میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور، شاہدرہ کے ایک بڑے ہسپتال، وزیرِ آباد اور ملتان کے امراضِ قلب کے ہسپتالوں کا کام عالی جناب نے رکوا دیا تھا۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ شہبازشریف بہت تھوڑی دیر کے لیے سوتے ہیں۔ رات گئے تک جاگتے اور صبح چھ بجے کام کے لیے مستعد ہوتے ہیں۔یاداشت ان کی غیر معمولی ہے۔ 2008ء میں ان سے پولیس اصلاحات پہ گفتگو تھی۔ 1998ء کا میں نے حوالہ دیا۔ فوراً وزیرِ اعلیٰ نے مجھے ٹوکا اور کہا: آپ سے میری ملاقات 1999ء کے موسمِ بہار میں ہوئی تھی۔ اپنی پسند اور ناپسند کے باب میں وہ بہت سخت ہیں، بالکل یک رخے۔ جسے ناپسند کیا، اکثر ہمیشہ کے لیے اسے ٹھکرا دیا۔ جو پسند آیا، اس پر عنایات کی بارش کر دی‘ اسی طرح سول سروس برباد کی۔ ڈیڑھ دو لاکھ روپے ماہوار تنخواہیں پانے والے افسروں کی تنخواہیں بیس لاکھ تک پہنچیں۔ قاعدے قانون کی کوئی پرواہ نہیں۔ لاہور کی میٹرو کیلئے مرکز میں قائم اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اجازت درکار تھی۔ پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ چار حصوں میں بانٹ کر بنا ڈالا، پوچھتا کون۔اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کو غیر معمولی صلاحیت اور توانائی بخشی ہے۔ اللہ ان پہ رحم کرے، صداقت شعاری کی توفیق عطا کرے کہ دائم آدمی دو کشتیوں میں سوار نہیں رہ سکتا۔ دائم دہرا کردار ادا نہیں کر سکتا۔