مکرمی !جیسے ہمیں اپنے اہل و عیال عید کے پُرمسرت موقع پر کپڑے‘ بوٹ‘ جیولری‘ کاسمیٹکس اور اشیاء خورد و نوش‘کی فرمائش کرتے ہیں بالکل ایسی طرح ان غریبوں کے سربراہان بنیادی ضروریات کی زد میں ہیں‘ اُن کے بچے بھی عید کی خوشیوں کا ارمان لیے بیٹھے‘ان کی بیٹیاں بھی سر پر دوپٹے کی خواہاں ضرور ہیں لیکن اِن کے والدین‘ بھائیوں کے ہاتھ خالی ہیں‘ اگر آمدن ہے بھی تو معقول نہیں جن سے وہ اپنے معصوم بچوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کر سکیں‘ ۔یہ نادار‘مفلس‘ یتیم‘مسکین‘ بہوہ مفلوک ِ الحال‘ کسمپرسی کا شکار تھے یا مہنگائی کے پہاڑوں نے ان کے ارمان ملیامیٹ کر کے رکھ دئیے۔یہ تقسیم روز ِ ازل سے ہے اور تاقیامت رہے گئی اس میں غربا کا صبر ٗ امیر کاامتحان مطلوب ہے یہ ممکن نہیں سائل ہو اور فریاد رس نہ ہو‘غریب ہوں اور سخی نہ ہو‘یہ درد بھرا بحر بیکراں موضوع ہے‘عید کی آمد آمد ہے ہمارے بازاروں میں بے ہنگم رش ہمارے گھروں میں شاپنگ کی اشیاء کو رکھنے کی جگہ نہیں‘ دینی فریضہ یہ ہے کہ صاحب ِ مال غریبوں کا خصوصاً خیال رکھیں اگر ایک صاحب ِ ثروت فیملی ایک یتیم بے سہار ا‘ غریب الحال کو عید کا خرچہ دے دیں یا اِن کی ضروریات کی اشیاء بہم پہنچا دیں تو وہ بھی ان خوشیوں میں شریک ہو جائیں انہیں سٹرکوں پر بھیک نہ مانگنی پڑے‘ ‘ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں عید نصیب کریں۔(عابد ضمیر ہاشمی آزاد کشمیر)