پاکستان ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کو پریشان کر رہا ہے! دیہاتی ہے یا قصباتی‘ یا شہری‘ ان پڑھ ہے یا نیم خواندہ یا اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ کلرک ہے یا افسر‘ کسان ہے یا مزدور‘ صنعت کار ہے یا وڈیرا‘ بچہ ہے یا نوجوان‘ یا عمر رسیدہ جہاندیدہ بزرگ‘ بڑی بوڑھی ہے یا نوبیاہتا دلہن! ہر کوئی درد مندی سے پوچھتا ہے کہ آخر بیماری کیا ہے؟ ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے؟ ہمارے سامنے مچھروں کی گندی بستی سنگا پور بن گئی‘ پھسڈی کوریا آسمان تک پہنچ گیا۔ تائیوان ‘ہانگ کانگ‘ تھائی لینڈ‘ یو اے ای‘ ہمارے دیکھتے دیکھتے ٹائیگر بن گئے۔ ملائشیا ترقی یافتہ ملکوں کے دروازے پر دستک دے رہا ہے مگر ہم دن بدن پیچھے جا رہے ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔ چار اُلٹے پڑتے ہیں۔ ہماری قومی ائر لائن نے سنگا پور ائر لائن سے لے کر ایمریٹس تک سب کو گود میں کھلایا ‘چلنا سکھایا اور اب اُن کے مقابلے میں صفر سے نیچے ہے! سٹیل مل ہم سے نہیں چل رہی! ریلوے کبھی آکسیجن پر ہے کبھی وینٹی لیٹر پر‘ کبھی ڈرپ لگ رہا ہے‘ کبھی گردوں کی صفائی ہو رہی ہے! عوام رو پیٹ رہے ہیں۔ کسی کو گیس کا کنکشن نہیں مل رہا‘ کوئی پانی پانی پکار رہا ہے۔ یو پی ایس جہیز کا آئٹم بننے لگا ہے۔ ٹریفک ایشیا کی بدترین ٹریفک میں شمار ہوتی ہے۔ کچہری میں انتقالِ جائیداد کے لئے جائیں تو لگتا ہے کہ سائل کا اپنا انتقال ہونے لگا ہے۔ عدالتوں میں مقدمے نسلوں کو منتقل ہو رہے ہیں۔ وکیل ججوں کے چہروں پر تھپڑ مارتے ہیں۔ جیلیں بدعنوانی کی ترغیب گاہوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ تاجر مادر پدر آزاد ہیں۔ ٹیکس نہیں دینا۔ فٹ پاتھ پر قبضہ کرنا ہے اور دکان دن کے ایک بجے کھولنی ہے۔ آپ کار انڈسٹری کو دیکھ لیجیے۔ پاکستان میں جو کار بیس لاکھ یا تیس لاکھ میں ملتی ہے اس میں کوئی سہولت نہیں وہی کار دوسرے ملکوں میں اتنی ہی قیمت (یعنی پاکستانی بیس یا پاکستانی تیس لاکھ) میں مل رہی ہے مگر خود کار نظام کے ساتھ۔ بٹن دبائیے تو سردی میں سیٹ گرم ہو جائے گی۔ ایک اور بٹن دبائیں سیٹ پیچھے یا آگے ہو جائے گی‘ اٹھارہ سو چیزیں اس میں وہ لگی ہیں جس کا پاکستان میں کار خریدنے والا سوچ تک نہیں سکتا! جیسے ہم کھائی میں ہیں۔ کھائی دن بدن نیچے جا رہی ہے۔ زمین کی تہہ کی طرف! اگر آپ نے اس صورتِ حال کی وجہ جاننی ہے تو دارالحکومت کے ایک پلازا صفا گولڈ کا احوال پڑھیے۔ اس میں ایک کیس سے آپ کو اُس بیماری کا پتہ چل جائے گا جس میں پاکستان مبتلا ہے۔ یہی تشخیص ہے۔یہ کیس پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا بہترین خلاصہ ہے۔ یہ معاملہ کرپشن نااہلی‘ جھوٹ‘ دھاندلی اور ظلم کا ایسا ملغوبہ ہے جس سے آپ کو پاکستانی اداروں کا ’’طریقِ واردات‘‘ معلوم ہو گا! آپ جان جائیں گے کہ شہریوں کے ٹیکس پر پلنے والے یہ سرکاری ادارے کس طرح شہریوں کو ذلیل و رسوا‘ خوار‘ بے بس‘ بیکس‘ حیران‘ پریشان کرنے کے بعد کس طرح بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں! سرکاری نااہلی اور قومی کرپشن کی یہ ہولناک داستان وفاقی دارالحکومت کے وسط میں واقع جناح سپر مارکیٹ سے آغاز ہوتی ہے۔ اس مارکیٹ کی بغل میں واقع ایک عمارت تھی جس میں سی ڈی اے کا محکمہ صحت واقع تھا۔ یہاں سے محکمہ صحت کو کس نے نکالا؟ کس کا فیصلہ تھا؟ بہر طور‘ اسے ایک پلاٹ کی شکل دی گئی۔ نہ صرف پلاٹ کی شکل دی گئی بلکہ اپنے ہی محکمہ صحت کے اس پلاٹ کو کمرشل پلاٹ قرار دیا گیا۔ پھر(2010ء میں) اسے نیلامی کے لئے پیش کیا گیا۔ یاد رہے کہ سی ڈی اے کے انتہائی طاقت ور بورڈ کی اجازت کے بغیر کوئی پلاٹ نیلامی کے لئے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پلاٹ کو کمرشل بنانے اور نیلام کرنے میں ادارے کے اعلیٰ ترین حکام شامل تھے۔ پلاٹ بِک گیا۔ اس پر ایک عالی شان پلازا تعمیر ہوا۔ سی ڈی اے کہتا ہے کہ پلاٹ کے مالک نے تین منزلیں‘ بغیر اجازت کے ‘ بڑھا دیں۔ یعنی سی ڈی اے تسلیم کرتا ہے کہ ان تین ’’غیر قانونی‘‘ منزلوں کو چھوڑ کر‘ باقی منزلیں قانونی تھیں! صرف پانچواں چھٹا اور ساتواں فلور بغیر اجازت کے بنایا گیا۔ ایک سو پچاس سے زیادہ دکانیں اس پلازے میں کام کر رہی ہیں۔ فوڈ کورٹ ہے۔ پارکنگ ہے۔ سنتارس کے بعد یہ مقبول ترین شاپنگ سنٹر ہے۔ کہانی کا بقیہ حصہ سننے سے پہلے اُس نکاح خوان کا قصّہ سن لیجیے۔ جس نے ایک مرد اور ایک عورت کا نکاح پڑھایا۔ شادی ہو گئی۔ بچے ہو گئے۔ اب نکاح خوان کہتا ہے کہ نکاح غلط تھا۔ بتائیے‘ غلطی کس کی ہے؟ بچوں کی؟ یا میاں بیوی کی یا نکاح خوان کی؟ یہ نکاح خوان‘ سی ڈی اے ہے۔ جب پلازا بن گیا۔ ایک سو پچاس سے زیادہ دکانیں کام کرنے لگیں تو سی ڈی نے پلاٹ کینسل کر دیا۔ اب ادارے کا موقف ہے کہ چونکہ پلاٹ کینسل ہو گیا ہے اس لئے ہم اسے خالی کرائیں گے۔ اس میں نیب اور اعلیٰ عدلیہ کا بھی عمل دخل ہے۔ میڈیا بتاتا ہے کہ 11جون کو عدلیہ نے حکم دیا کہ چونکہ صفا گولڈ مال ہسپتال کے پلاٹ پر بنایا گیا اس لئے اسے واپس لیا جائے۔ لگتا ہے میڈیا صحیح رپورٹ نہیں کر سکا۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ 2010ء میں پلاٹ نیلام کیا جائے۔ اس پر سینکڑوں دکانیں بنیں۔ پھر 2017ء میں اسے کینسل کر دیا جائے اور پھر سینکڑوں دکانداروں کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو تباہ و برباد کر دیا جائے؟ تازہ ترین ’’اقدام‘‘ یہ کیا گیا ہے کہ دو منزلوں پر مشتمل بیس منٹ اور فوڈ کورٹ کو سیل یعنی بند کر دیا گیا ہے۔سی ڈی اے کے ترجمان نے ایک بات ایسی کہی ہے جو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ فرمایا ہے کہ جو ایکشن بھی لے رہے ہیں‘ ’’رولز اینڈ ریگولیشن‘‘ یعنی قواعد و ضوابط کے مطابق لے رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں زخم لگا کر بے حرمتی کرنا! جب ہسپتال کا پلاٹ کمرشل قرار دیا گیا اُس وقت قواعد و ضوابط کہاں تھے؟ پھر نیلام ہوا۔ ادارے نے پلاٹ کی قیمت وصول کی پھر تعمیر ہوئی۔ سب کچھ دن دہاڑے ہوا۔ پانچویں‘ چھٹی ‘ساتویں فلور اگر غیر قانونی ہیں تو دورانِ تعمیر ادارہ کیا افیون کھا کر سو رہا تھا؟ پھر سات برس بعد پلاٹ کی تنسیخ ! کیا کوئی صحیح الدماغ شخص اس اقدام کو جائز قرار دے سکتا ہے؟ اگر یہ عدالت کا حکم ہے تو یقینا ادارے نے عدالت کو حقائق غلط انداز میں پیش کئے ہیں۔ عدالت سے زیادہ کس کو معلوم ہے کہ یہ اب امر واقعہ (Fait-Accompli)کا معاملہ ہے۔ اس سارے عرصہ میں سی ڈی اے یہاں کے تاجروں سے ٹیکس لیتا رہا ہے اور ایف بی آر بھی! یہ ہے وہ اسلوب‘ وہ انداز‘ جس سے ہمارے ادارے کام کر رہے ہیں۔ قصور سوفیصد ادارے کا اور ایک سو پچاس تاجروں اور سینکڑوں ملازموں کی گردنوں پر تلوار رکھ کر اب’’قواعدو ضوابط‘‘ کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ صرف ایک معاملہ ہے جو منظر عام پر آیا ہے۔ ایسے کتنے ظالمانہ اقدامات ہیں جن پر پردے پڑے ہیں۔ ناجائز تعمیرات ان اداروں کی اشیر باد سے ہوتی ہیں۔ پھر ایک دن جھرجھری لے کر سی ڈی اے یا اس کا کوئی اور بھائی جاگتا ہے اور اپنی کرپشن اور نااہلی کی سزا عوام کو دینے لگ جاتا ہے۔ یہ سارا احوال جان کر بھی اگر کسی کو نہیں سمجھ میں آ رہا کہ پاکستان کیوں نہیں ترقی کر رہا تو اسے کسی طبیب حاذق کے پاس جانا چاہیے۔ وضاحت۔ کالم نگار کے کسی بھائی، پھپھو، چاچا، ممانی یہاں تک کہ دور کے کسی رشتہ دار کی بھی کوئی دکان یا حصہ صفا گولڈ مال میں نہیں ہے۔ نہ ہی روزنامہ 92نیوز کا کوئی مفاد وابستہ ہے۔ کالم نگار اسلام آباد کا مکین ہونے کے باوجود دوبار سے زیادہ اس مال میں نہیں گیا وہ بھی کسی اور کے ساتھ جس نے خریداری کرنا تھی۔