میرے سخن آشنا دوست یقینا اس بات کو محسوس نہیں کریں گے اور نہ مجھے گردن زدنی قرار دیں گے کہ اگر میں مولانا طاہر القادری کے ضمن میں خدائے سخن میرؔ کا شعر درج کر دوں: مت سہل ہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے میں علامہ طاہر القادری کے بارے میں ان کی سیاست سے ریٹائرمنٹ پر کالم لکھنا چاہتا تھا مگر مجھے اندیشہ تھا کہ کالم چھپنے تک ان کے مداحین ان کو ریٹائرمنٹ واپس لینے پر مجبور نہ کر دیں۔ شاید یہی اندیشہ یا ڈر دوسرے لکھنے والوں کوبھی ہو کہ اس واقعہ پر کوئی ایسا ردعمل نہیں آیا۔ صرف ایک کالم برادر سہیل وڑائچ کا نظر سے گزرا کہ اس نے اپنے مخصوص انداز میں اس نقصان عظیم پر افسوس کا اظہار کیا ہے یہ واقعتاً سیاسی دنیا کا ایک بڑا سانحہ ہوا ہے کہ ایک مفکر نابغہ عصر اور عبقری سیاست سے کنارہ کش ہو گیا اور سیاست کچھ یتیم سی ہو گئی ’’ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘ جن لوگوں نے مولانا کو دھرنے کے ہنگام میں دیکھا ہو کہ جب وہ بار بار گھڑی دیکھ کر فرما رہے تھے کہ بس حکومت کے سرنڈر کرنے میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے وہ میری بات کو سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک اعلان پر تو انہوں نے کہا تھا ’’آدھا کام ہو چکا‘‘ تب میں روزنامہ نوائے وقت میں لکھتا تھا جب میں ان سے متاثر ہونا شروع ہوا۔ مگر اس سے بھی پہلے جب میں ایم اے انگریزی کر رہا تھا اور میں پروفیسر افتخار احمد کا چہیتا شاگرد تھا تب مولانا طاہر القادری ان کے گھر نیو کیمپس 30ای میں آئے تھے اور اسلامک فلاسفی کا ترجمہ کروانے کے لئے میرے استاد کو ایک لاکھ روپے دیے تھے غالباً 1984ء کی بات ہے۔ اس جگہ وارث میر بھی ہمارے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس کتاب کے ترجمے پر مگر میرے استاد کا نام نہیں چھپا اور اس کتاب کے بارے میں بھی کسی نے افواہ اڑائی کہ وہ تو مولانا کے استاد برہان الدین صدیقی کی تھی۔ خیر بڑے لوگوں کے ساتھ حسد اور رشک تو چلتا ہے اور معاصرانہ چشمک رکھنے والے معاندانہ اندازبھی رکھتے ہیں۔ میںایک اخبار میں کالم لکھ رہا تھا میری ریاض حسین چودھری سے دوستی ہو گئی وہ منہاج القرآن کا رسالہ نکالتے تھے اور میں نے ان کا نعتیہ مجموعہ ’’زر معتبر ‘‘چھپوایا تھا۔ انہوں نے مجھے منہاج القرآن وزٹ کی دعوت دی میں نے وہاں کا وزٹ کرنے کے بعد اپنے کالم میں یونہی ایک شوخ سا جملہ لکھ دیا کہ ’’منہاج القرآن کے ہرکمرے میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر سے پیچھے علامہ طاہر القادری کی تصویر بھی آویزاں تھی اور وہ تصویر میں سوچ رہے تھے کہ ان دونوں سے آگے کیسے نکلنا ہے۔ پھر کیا تھا علی الصبح ایک بٹ صاحب نے اخبار میرے سامنے میزپر پھینکا اور کہا ’’یہ کیا بکواس لکھا ہے۔’’ مختصر یہ کہ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کا آخری کالم ہونا چاہیے کہ ہم فناٹک ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اگلے کالم میں میں نے معذرت کی کہ میں مولانا کا مداح ہوں۔ انہیں تو نواز شریف نے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر طوائف کروایا تھا۔مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں نواز شریف نے طواف کروانے کے بعد اتار دیا تھا مگر وہ اب تک سوار ہیں۔ میں نے ایک اور بات کی طرف توجہ دلائی کہ مولانا بہت زندہ دل ہیں کہ انہوں نے منہاج القرآن کا ایک کلچرل ونگ بھی بنایا ہے جس کا صدر ہمارا دوست فردوس جمال ہے۔ اس کے بعد علامہ صاحب کی دعوت پر سید ارشاد احمد عارف بھی ساتھ لے گئے۔ تب وہ مختلف ملکوں کا دورہ کر کے آئے تھے۔ وہ تیز تیز باتیں کر رہے تھے اور ان کی گفتگو میں انگریزی کے الفاظ زیادہ شامل ہو رہے تھے۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب وہ کہتے تھے کہ ملک کو سدھارنے یا چلانے کا سارا فارمولا ان کے بریف کیس میں ہے۔ وہ بریف کیس ہر وقت اپنے ساتھ بھی رکھتے تھے۔ کھانا ان کا اعلیٰ تھا۔ مولانا نے ہر حوالے سے بہت شہرت پائی۔ خاص طور پر دوسرے دھرنے میں تو وہ اقتدار سے چند ہاتھ ہی دور رہ گئے تھے۔ مولانا کے ساتھ ہزاروں لوگ یخ بستہ سردی میں ڈی چوک بیٹھے رہے اور وہ گرم کنٹینر میں کہ جہاں گرمی سے پسینہ آ رہا تھا اور پھر سب سے بڑا المیہ ماڈل ٹائون میں 14لوگوں کی شہادت تھی جس کا کچھ بھی نہ بن سکا اصل میں مولانا طاہر القادری کا عروج و زوال شریف فیملی سے ہی وابستہ رہا، وہی ان کے محسن تھے اور پھروہی دشمن۔ مولانا پاکستان کی تاریخ کا ایک باب ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر اجتماعی اعتکاف بھی ہے۔ وہ کینیڈا کی شہریت لینے میں بھی کامیاب رہے۔ بے شمار مدرسے مختلف ممالک میں ان کے زیر انتظام ہیں۔ وہ معمولی آدمی نہیں۔ انہیں عمران خاں کا سیاسی کزن بھی کہا گیا اور ایسا ہے بھی مگر خان صاحب نے ان کو بھلا دیا اور پھر ’’وہ گیا ہے تو کوئی روکنے والا بھی نہیں‘‘ یہ بھی کیا کم ہے کہ ان کے دونوں بچے ڈاکٹر ہیں یعنی پی ایچ ڈی اور دیکھنا یہ ہے کہ ان کے مشن کو آگے چلاتے ہیں یا نہیں۔ بات یہ ہے کہ علامہ طاہر القادری جیسی شخصیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لاکھ اختلاف کے باوجود ان کی قابلیت ہر دو یعنی تحریر و تقریر میں مسلمہ ہے۔ جتنی کتابیں انہوں نے لکھی ہیں اتنی تو آدمی پڑھ بھی نہیں سکتا۔ اب تو ایک ہزار سے اوپر ہو گئی ہونگی۔ ان کی کیسٹیں اور دوسرے خطبات الگ ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان سے حسد کرنے والے خود ان کے مکتبہ فکر میں بھی خاصے موجود ہیں۔ اصل میں وہ عالمی سطح پر سوچ رکھتے ہیں ،بین المذاہب بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں اور یہاں بھی وہ مولانا طارق جمیل کے ساتھ پیار بھری ملاقات کرتے نظر آئے۔ جو بھی ہے میل ملاقات اور مکالمے کی فضا پیدا کرنا اچھی بات ہے اب جب وہ سیاست سے ریٹائر ہو گئے ہیں تو ہماری حالت بھی وہ جو ایوب خاں کے جانے کے بعد ہر ٹرک کے پیچھے ایک مصرع کی صورت لکھی ہوئی تھی’’تیری یاد آئی ترے جانے کے بعد‘‘ یہ کم نہیں کہ وہ اپنی کمر کی تکلیف کے باوجود ڈٹے رہے مگر آخر تو انسان تھک ہی جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سوچا ہو کہ اس قوم کے لئے مزید کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ’’ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘