عمران خان کے مخالفین اور ناقدین کے بارے میں تو وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ وہ دانا ہیں یا نادان‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں نادان دوست وافر مقدار میں عطا فرمائے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو نادان دوست نہ دے کہ یہ دشمنوں سے زیادہ خطرناک اور باعث ندامت ہوتے ہیں۔ گزشتہ سولہ ماہ کے دوران عمران خان کی ٹیم اور موجودہ حکومت کی کارگزاری کا دفاع تو اس کے مداح اور خیر خواہ کسی نہ کسی طور کرتے ہی رہے‘ سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار‘ ملک میں اقربا پروری اور دوست نوازی کا کلچر‘ بیورو کریسی‘ تاجر برادری کا عدم تعاون اور ناتجربہ کاری ایسے عوامل ہیں جنہیں کوئی انصاف پسند نظر انداز کرسکتا ہے نہ عمران خان کو درپیش ناقابل عبور رکاوٹوں کے سوا کوئی نام دینا ممکن ہے۔ ناقص ‘ ملاوٹی اور مضر صحت خوراک کے عادی بناسپتی معاشرے میں خالص دیسی گھی کے پکوان پیش کرنے والوں کو ایسی ہی مزاحمت کا سامنا پڑتا ہے جس سے عمران خان دوچار ہیں ۔اس کے اپنے اردگرد بھی الاماشاء اللہ وہی کاٹھ کباڑ جمع ہے جس کا یہ معاشرہ عادی ہے لیکن موجودہ حکومت کا بیڑا غرق دانا دشمن کر رہے ہیں نہ ڈھکے چھپے اور علانیہ مزاحمتی عناصر‘ اس کارخیر کا بیڑا عمران خان کے فیصل واوڈا ایسے نادان دوستوں نے اٹھایا ہے اور اپنے لیڈر کو اس انجام کی طرف دھکیل رہے ہیں جو ہمارے ہاں مقبول لیڈروں کا مقدّر ہے۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی کثرت رائے سے منظوری کے بعد یہ بحث فضول ہے کہ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں سے کون‘ کب عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر اقتدار میں آیا؟۔ کون سلیکٹرز کا حسن انتخاب ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں کی گئی تقریروں سے لے کر آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر ووٹنگ تک اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈروں کے انٹرویوز‘ خطابات اور باہمی تبادلہ خیال‘ سب کا مدعا اس کے سوا کیا تھا ؎ روٹھے ہو تم‘ تم کو کیسے منائوں پیا بولونا‘ بولونا خوشبو بن کے آئوں‘ سانسوں میں بس جائوں کیسے تم کو منائوں؟ بولونا‘ بولونا ووٹ دینے کے بعد اپوزیشن کے لیڈر اگر صرف ایک ہی بات کرتے کہ انہوںنے قومی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کڑوا گھونٹ پیا تو مخالفین کے زبان طعن دراز کرنے کی نوبت نہ آتی ۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے سے متاثر اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری کو پاکستان کا نیلسن منڈیلا ثابت کرنے والے دانشور‘ تجزیہ کار اور سیاسی کارکن چند روزہ ناراضگی و بے چینی کے بعد خاموش ہو جاتے مگر جب اپنے اقدام کا جواز انہوں نے یہ پیش کیا کہ اس طرح ہم نے اسٹیبلشمنٹ کو راضی کر لیا‘ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلہ پیدا کرنے میں کامیاب رہے اور موجودہ حکومت کی رخصتی اب ہفتوںنہ سہی مہینوں کی بات ہے تو‘گویا مان لیا کہ اپنا تھوکا ہم نے پیا کی خوشنودی کے لئے چاٹا‘ مطلب یہ کہ اپوزیشن بالخصوص شریف خاندان نے اسٹیبلشمنٹ اورفوجی قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین دلا کر غیر جانبداری پر مائل کر لیاہے اور اب وہ تحریک عدم اعتماد یا اتحادیوں کی علیحدگی سے پارلیمنٹ میں تبدیلی لانے پر قادر ہے۔ لندن میں میاں شہباز شریف اور پاکستان میں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ(ن) کی سرگرمیوں سے اپوزیشن خورسندہے ‘حکمران جماعت مضطرب اور حکومتی اتحادیوں کی تازہ بے چینی جسے بلیک میلنگ بھی کہا جا سکتا ہے ان ہائوس تبدیلی کا تاثر اجاگر کرنے میں مددگار۔ ان حالات میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا فطری ردعمل اور دانش مندانہ اندازکار کیا ہونا چاہیے؟ اتحادیوں کے جائز مطالبات کی پذیرائی کے علاوہ اپوزیشن اور اداروں کے ساتھ تعلقات کار میں مزید بہتری تاکہ مخالفین کا پروپیگنڈا بے اثر ہو اور اداروں کی غیر جانبداری کا تاثر حکومت کی کمزوری کو عیاں نہ کرے ‘تابع ادارے غیر جانبدار ہو جائیں تو حکومت ‘‘سلطنت شاہ عالم ازدلّی تا پالم‘‘ کے سوا کچھ نہیں رہتی۔۔ حکومت کا بیانیہ یہ ہونا چاہیے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر اپوزیشن کا تعاون حاصل کر کے ہم نے سیاسی پختگی کا ثبوت دیا ‘حکومت اور اپوزیشن کے مابین تلخیاں ختم کیں۔‘پارلیمنٹ کی خود مختاری کو یقینی بنایا اور یہ ثابت کیا کہ سیاستدان اپنے معاملات کسی دوسرے کی مداخلت کے بغیر طے کرنے کی اہلیت و صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں‘ پارلیمنٹ کی مضبوطی کا سب سے زیادہ فائدہ حکومت وقت کو ہوتا ہے اور وزیر اعظم یا حکومت کا کسی ماتحت ادارے پر انحصار اس کی رٹ کو کمزور کرتا ہے۔ فیصل وائوڈا اور دیگر نادان دوست مگر یہ ثابت کرنے پر تُلے ہیں کہ اپوزیشن نے ترمیمی بل پر ووٹ عمران خان او3ر حکومت کے ساتھ تعاون کے جذبے‘ پارلیمنٹ کے استحکام اور قومی مفاد کے تحت نہیں بلکہ کسی ادارے کے دبائو پر یا سیاسی لین دین کے عوض دیا ہے ۔کاشف عباسی کے شو میں فوجی بوٹ لا کر فیصل وائوڈا نے سیاسی بدذوقی اور ناپختگی کی حد کر دی۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری دو ٹی وی اینکرز مبشر لقمان اور سمیع ابراہیم کی ٹھکائی کرنے کے بعد صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ موجودہ حکومت کی مخالفت قابل دست اندازی وزیر جرم ہے اور حکمرانوں کا کام اب قانون پر عملدرآمد نہیں قانون کو ہاتھ میں لینا تشدد کو پروان چڑھانا ہے۔ عمران خان نے جس طرح فواد چودھری کے اقدام پر خاموشی اختیار کی اسی طرح فیصل وائوڈا کی حرکت پر بھی’’ الخاموشی نیم رضا‘‘ کا تاثر دے رہے ہیں لیکن کوئی دانا مشیر انہیں سمجھانے والا نہیں کہ یہ وفاداری بشرط استواری کا مظاہرہ ہے نہ اپوزیشن کو شرمندہ کرنے کا اقدام‘ وزیر اعظم ‘ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے سامان ندامت و رسوائی ہے۔ایک طبقہ تسلسل سے یہ بیانیہ پرموٹ کر رہا ہے کہ عمران خان ‘حکومت کی اپنی کوئی اوقات نہیں ‘موجودہ حکمران اشاروں پر چلنے والی کٹھ پتلیاں ہیں جبکہ اپوزیشن بھی اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے نہ عوام اور کارکنوں کے جذبات کے مطابق کوئی اقدام کرنے کے قابل۔ ترمیمی بل پر اداروں نے جو چاہا وہ ہو کر رہا اس میں عمران خان کا کوئی کمال ہے نہ اپوزیشن کا کسی فرد‘ ادارے یا حکومت پر احسان ۔یہ تاثر حکومت کے لئے مفید نہیں‘ تباہ کن ہے البتہ اپوزیشن اپنے کارکنوں کے روبرو ندامت اور سول بالادستی کے بیانئے سے دستبرداری کی بھاری قیمت اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری کی صورت میں وصول کرنے کا تاثر دے سکتی ہے یہ سودا بُرا نہیں۔بل کی منظوری کے بعد وزیروں کی برہمی اور نواز شریف کی صحت پر سیاست سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ میاں شہباز شریف مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں مقتدر قوتوں کو عمران خان سے بدظن کرنے میں کامیاب رہے اور یہ باور کرایا کہ عمران خان اور ان کے بعض ساتھیوں نے کہیں نہ کہیں چالاکی دکھائی اور ہماری طرح یہ بھی ناقابل اعتبار ہے‘ اہم شخصیات یہ دانہ چگتی ہیں یا نہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن نادان دوستوں کی ہر ممکن کوشش نظر آتی ہے کہ وہ سنجیدہ فکر عوام‘ اخلاقی آداب و روایات کے خوگر حامیوں اور اسٹیبلشمنٹ کو جس حد تک بدظن کر سکتے ہیں کر گزریں‘ وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان زبان اور دست درازوں سے توبہ ہی بھلی۔عمران خان کو چاروں طرف سے گھیرنے کا ایک مقصد غصہ دلا کر اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات پر مائل کرنا ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ کی یادداشت واقعی عوام سے زیادہ کمزور ہے اور وہ شریف و زرداری خاندان پر اعتبار کر سکتی ہے یہ سوملین ڈالر کا سوال ہے۔ مگر فیصل وائوڈا جیسے نادان دوست؟ خان کو ان جیسوں کی موجودگی میں کسی دشمن کی ضرورت ہونی تو نہیں چاہیے۔