حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا حضرت! اسلام کے ارکان کتنے ہیں؟ فرمایا’’چھ‘‘ معتقد حیران ہوا ‘عرض کیا حضور علماء تو اسلام کے پانچ ارکان بتاتے ہیں یہ چھٹا رکن کونسا ہے؟ فرمایا ’’روٹی‘‘ واقعی پانچ ارکان اسلام کی ادائیگی خوش دلی اور خوش اسلوبی سے اس وقت ممکن ہے جب پیٹ میں چوہے نہ دوڑ رہے ہوں اور دل و دماغ پر یکسوئی کا غلبہ ہو۔ حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت ہو اور کھانا موجود توپہلے شکم پُری کریں پھر قبلہ رخ ہوں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ایک سالہ دور کا جائزہ لیتے ہوئے قومی معیشت کی زبوں حالی اور عوام پر مہنگائی کے اثرات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سرائیکی میں کہتے ہیں پیٹ نہ پیاںروٹیاں تے سبھے گالہیں کھوٹیاں(پیٹ میں روٹی کے بغیر سب باتیں فضول ہیں) معاشی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حکومت عوام پر بھاری پڑی۔ابتدائی چھ ماہ میں وزیر خزانہ اسد عمر یہ احساس ہی نہ کرپائے کہ قرض چکانے کے لئے حکومت فوری طور پر کیا کر سکتی ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے؟۔ عمران خان کو وزیر خزانہ نے کشکول پکڑایا‘ چین‘ سعودی عرب‘متحدہ عرب امارات سے آسان شرائط پر قرض لینے کی راہ دکھائی اور خود اپنے اردگرد سابقہ دور کے بیورو کریٹس اکٹھے کر کے آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے یا نہیں؟ موصوف یہ فیصلہ تک نہ کرپائے ‘غیر سنجیدگی کی انتہا یہ تھی کہ اسحق ڈار کے معتمد خاص طارق باجوہ کو گورنر سٹیٹ بنک کے طور پر برقرار رکھا اور گورنر نے ڈالر کی قدر میں اضافے کا فیصلہ کیا تو وزیر اعظم کو علم ٹی وی خبروں سے ہوا‘ وزیر خزانہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے لیڈر کو بروقت اطلاع کیوں نہ دی؟ تو گویا ہوئے کہ رات گئے میں نے واٹس ایپ میسج کر دیا تھا اللہ اللہ خیر سلّا۔ بجا کہ سابقہ دو حکومتوں کی بداعمالی‘ لوٹ مار‘ نااہلی اور ٹیکس چوروں قرض خوروں اور لٹیروں سے ملی بھگت کے علاوہ محصولات کے حوالے سے تن آسانی نے دن یہ دکھائے‘ موصول ہونے والے ٹیکسوں میں سے آدھی رقم غیر ملکی قرضوں کے سود پر چلی جاتی ہے اور درآمدات و برآمدات کے مابین اربوں ڈالر کا فرق‘ سرمائے کی غیر قانونی طور پر بیرون ملک ترسیل علاوہ ڈالر کی قدر میں مصنوعی توازن موجودہ معاشی بحران بالخصوص مہنگائی کا بنیادی سبب ہے مگر عام آدمی معاشی سوجھ بوجھ رکھتا ہے نہ اتنا دور اندیش کہ اپوزیشن اور میڈیا کے پروپیگنڈے کو کوڑے دان میں ڈالے اور حکومت کے ترجمانوں کی طفل تسلیوں پر ایمان لے آئے۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں حکومت تاحال شکست خوردہ نظر آتی ہے اور تحریک انصاف کے لیڈر‘ حکومتی وزیر ‘مشیر عام آدمی کو مطمئن کرنے سے قاصر ہیں۔ سابق حکمران اس لحاظ سے قابل داد ہیں کہ انہوں نے جہالت اور ناخواندگی کو برقرار رکھا اور عوام کی معاشی توقعات بلند کیں۔ بھٹو صاحب سمیت ہر حکمران نے عوام کو یہ باور کرایا کہ ہاتھ پائوں ہلانے اور ٹیکس ادا کئے بغیر روٹی کپڑا مکان اور دیگر انسانی ضرورتوں بلکہ مراعات کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری۔ حکومت خواہ بھیک مانگے‘ ڈاکہ ڈالے یا قومی املاک فروخت کرے‘ روزگار کے علاوہ مفت یا لاگت سے کم نرخوں پر پٹرول‘ ڈیزل‘ بجلی‘ پانی ‘ گیس ‘ آٹا ‘ دال فراہم کرنے کی پابند ہے۔ لوٹ مار کا حساب مانگنا سیاسی انتقام ہے اور ٹیکس چوروں‘ سمگلروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کی سرکوبی قومی معیشت کو پامال کرنے کے مترادف۔ قوم کا یہ مائنڈ سیٹ بنانے کے بعد سابقہ حکمران تو مزے سے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئے ‘بھگت موجودہ حکومت رہی ہے۔ رہے عوام تو زیادہ تر عجلت پسند ہیں اور زود رنج۔ دور رس معاشی پالیسیوں سے عوام دوست نتائج جب تک برآمد نہیں ہوتے حکومت تنقید اور دبائو کا سامنا کرتی رہے گی اور ابلاغی مشیروں کی بار بار تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں۔ خارجہ محاذ پر حکومت روز اوّل سے کامران ہے 2017-18ء تک بھارت نے ہمارا ناطقہ بند کئے رکھا۔ امریکہ اور یورپ کا اپنا ایجنڈا ہے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور ایران جیسے پاکستان کے روائتی دوست بھی نریندر مودی کے سحر میں گرفتار تھے اور ہم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر۔ متحدہ عرب امارات میں مودی کو اجتماع عام کی اجازت اور مندرکی تعمیر کوئی معمولی واقعہ نہ تھا‘ امریکہ تو ایک لحاظ سے دشمنوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا اور سپر پاور نے ہماری ادائیگیاں روک کر اقتصادی دیوالیہ پن کی راہ ہموار کی۔ سی پیک پر ہم نے وہ ڈھنڈورا پیٹا کہ چین کے سارے مخالفین ہمارے خلاف صف آرا ہو گئے اور بھارت دھمکیوں پر اتر آیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں پہلی بار امریکہ سے لے کر چین اور روس تک اور سعودی عرب سے لے کر قطر و ایران تک سارے سابقہ دوست مائل بہ کرم ہیں اور حسب توفیق ہماری معاشی مشکلات کم کرنے میں مددگار۔ بیرونی دوروں میں عمران خان کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور کپتان نے حسب توقع پاکستان کا مقدمہ جرأت‘ وقار اورکامیابی سے لڑا۔ امریکہ میں خان کی کارگزاری غیر معمولی تھی اور امریکی ایوان نمائندگان کی قرار داد میں اسے ایک ایسا لیڈر قرار دیا جسے کرپٹ نہیں کہا جا سکتا۔ اسلامیان برصغیر ہی نہیں بدتر مخالف بھی قائد اعظم کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔ بھارتی چیخ وپکار دورے کی کامیابی اور عمران خان کی کامرانی کی دلیل ہے‘ پاکستان کی سفارتی فتح۔ بھارت 27فروری کو ہرگز نہیں بھول سکتا پاک فوج یہ کارنامہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے دور میں شاید سرانجام نہ دے سکتی کہ دونوں اللہ کے بندے بھارت سے مرعوب تھے اور فوجی قیادت کے حوالے سے تحفظات کا شکار۔ پلوامہ واقعہ میاں نواز شریف کے دور میں ہوتا تو ایف آئی آر شائد لاہور یا بہاولپور میں کٹتی اور ابھی نندن کی گرفتاری کو کلبھوشن کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی درفنطنی قرار دیا جاتا جو دو ہمسایوں کے تعلقات خراب کرنے کے لئے ہمیشہ کمربستہ رہتی ہے۔ قومی لٹیروں کے احتساب کا عمل تحریک انصاف کے دور میں تیز ہوا اور نیب نے ایسوں ایسوںپر ہاتھ ڈالا جن کے فرعون لہجے سے ریاستی ادارے تھر تھر کانپتے تھے۔ لوٹی ہوئی دولت اگلوانے کا مرحلہ ابھی باقی ہے مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں ؎ مایوس نہ ہو ان سے اے رہرو فرزانہ کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی ریاست کی بالادستی اورقانون کی حکمرانی کا تصور جڑیں پکڑ رہا ہے اور افراد کے بجائے اداروں پر انحصار کا بیانیہ فروغ پذیر ہے تحریک انصاف بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح شخصیت پرستی کے موذی مرض میں مبتلا ہے مگر اس جماعت کا کارکن دوسری جماعتوں سے مختلف ہے عمران خان کے کئی فیصلے فعال کارکنوں اور پیروکاروں نے تبدیل کرائے‘ جتنی تنقید سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے کارکن اپنے وزیروں مشیروں الیکٹ ایبلز پر کرتے ہیں کسی دوسری جماعتوں میں اس کا تصور محال ہے قوم کے اربوں روپے لوٹ کر بیرن ملک منتقل اور پاکستان کو کنگال کرنے والوں کی پیشیوں‘ گرفتاریوں پر عام آدمی خوش ہے اور وہ اسے مکافات عمل سمجھتا ہے۔ اسی باعث اپوزیشن کے یوم سیاہ کو عوام نے گھاس نہیں ڈالی اور پشاور کے سوا وہ کہیں متاثر کن شو نہیں کر پائی۔ مہنگائی کے حوالے سے تو نہیں البتہ احتساب کے ضمن میں حکومتی بیانیے کو عوام میں پذیرائی مل رہی ہے اور گرفتاریوں پر احتجاج کی کیفیت نظر نہیں آتی۔ ویسے بھی ایک سال بعد حکومت گرانے کے منصوبے 2014ء میں ناکام ہوئے تو 2019ء میں کامیاب ہو سکتے ہیں اگلے چند دنوں میں عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے دلیرانہ فیصلہ کر لیا اور پالیسیوں کے تسلسل کی طرح قیادت کے تسلسل کی خواہش پوری ہو گئی تو راوی کافی عرصہ تک چین لکھے گاکہ ع رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی میڈیا کے باب میں البتہ حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے احتساب ہر ایک کا ہو مگر میڈیا کو بطور ادارہ ہدف بنانا ناعاقبت اندیشی ہو گی۔ فواد چودھری میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بناتے بناتے وزارت سے گئے اب میڈیا کورٹس کی چتائونی دی جا رہی ہے‘ پتہ نہیں یہ کس کی سازش ہے۔ عمران خان!نادان دوستوں سے ہوشار!!