یہ 25 جنوری 1981ء کی شام تھی جب میں پی اے ایف بیس مسرور کراچی میں اپنے گھر سے پانچ چھ فرلانگ کے فاصلے پر واقع فٹبال گراؤنڈ میں گول کیپنگ کر رہا تھا۔ اس گراؤنڈ اور ہمارے گھر کے مابین ایک وسیع خالی رقبہ تھا جس پر کوئی آبادی وغیرہ نہیں تھی۔ ہمارا گھر درختوں کے جھنڈ کے بیچوں بیچ واقع تنہا مکان تھا۔ میں نے اچانک درختوں کے اس جھنڈ میں سے اپنی والدہ کو نمودار ہوکر بہت بیقرار انداز سے اپنا دپٹہ لہراتے دیکھا۔ میں دوڑتا ہوا ان کے پاس پہنچا تو انہوں گھبرائے ہوئے لہجے میں بتایا ’’تمہارے والد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، جلدی ایم آئی روم جاؤ !‘‘ میں دوڑتا بھاگتا ایم آئی روم پہنچا تو ایک بیڈ پر اپنے والد کو لیٹے پایا جن کی بائیں ٹانگ گھٹنے تک ننگی تھی۔ ٹانگ پر ہلکے سے دو زخم بھی نظر آرہے تھے مگر جھٹکا مجھے ان کی ٹانگ میں خم دیکھ کر لگا جس کا مطلب تھا کہ ٹانگ ٹوٹ چکی ہے۔ اپنے گھر میں کسی حادثے کے اس منظر کا سامنا مجھے بارہ برس کی عمر میں تھا۔ مجھے یاد ہے میں روپڑا تھا اور میرے والد نے مجھ سے کہا تھا ’’تم میرے سب سے بڑے بیٹے ہو، اگر تم کمزور پڑ جاؤگے تو مجھے سنبھالے گا کون ؟‘‘ یہ سنتے ہی میں نے آنکھیں پونچھ لیں اور زندگی کے پہلے بحران سے نمٹنے کے لئے آستینیں چڑھا لیں۔ ان کے علاج کے دوران ابتدا میں وہی پلاسٹر والا طریقہ کار آزمایا گیا لیکن ایک ماہ بعد پلاسٹر کاٹنے سے قبل ایکسرے ہوا تو ڈاکٹرز سمیت سب یہ دیکھ کر چونک گئے کہ ہڈی نے معمولی سا بھی جوڑ نہ لیا تھا۔ ایک ماہ مزید پلاسٹر رہا اور جب دوبارہ ایکسرے ہوا تو صورتحال جوں کی توں تھی۔ کچھ ٹیسٹ وغیرہ ہوئے تو انکشاف ہوا کہ میرے والد کی ہڈیوں میں وہ لیس دار مادہ موجود نہیں جس سے ہڈی جڑنے میں مدد ملتی ہے۔ یوں نوبت آپریشن پر چلی گئی اور یہ پورا کیس حل ہونے میں تقریبا دو برس لگ گئے۔ اس عرصے کے دوران میں گھر اور ہسپتال کے بیچ کسی پنڈولم کی طرح متحرک رہا۔ والد صاحب کو صحت یاب ہوئے دو برس ہی ہوئے تھے کہ برادرم ڈاکٹر اسحاق عالم کا صرف چھ برس کی عمر میں بہت ہی بدترین ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ان کا ایک پیر کار کے گھومتے ٹائر کے نیچے آیا تو سمجھئے پڑخچے ہی اڑ گئے۔ ہڈی بری طرح متاثر ہوئی جبکہ گھٹنے کے قریب سے لے کر پنجے تک گوشت تو بالکل ہی اڑ گیا۔ اگلے آٹھ سال کے دوران پانچ آپریشنز ہوئے تب جا کر کہیں یہ ٹانگ بچ پائی۔ یہ آٹھ برس وہ اور میں کبھی گھر تو کبھی ہسپتال میں رہے۔ جب 1992ء میں ان کا آخری آپریشن ہوا تو تب میں ایک برس کے بچے کا باپ تھا۔ وہ باپ جس نے بارہ برس کی عمر کے بعد سے زیادہ وقت ہسپتالوں میں ہی گزارا تھا۔ ان ہسپتالوں میں اس نے کٹی پھٹی لاشیں، گولیوں اور حادثات دونوں ہی کے شکار زخمی دیکھے تھے۔ اور پھر زخمیوں میں سے کچھ تو ایسے بھی دیکھ رکھے تھے جن کے زخموں میں کیڑے تک پڑ گئے تھے۔ اس نے آپریشن تھیٹرز کے باہر لوگوں کو آنسو بہاتے دعائیں مانگتے بھی دیکھا تھا اور مردہ خانوں میں اپنے عزیز تلاش کرتے بھی۔ ایک طرف آپ بہت کم عمری میں ایسے دردناک و سنجیدہ ماہ و سال سے گزرے ہوں اور ساتھ ہی آپ کا مطالعے کا وہ نشہ بھی زوروں پر رہا ہو جو صرف چھ برس کی عمر میں لگ چکا تھا تو نوعمری میں ہی آپ کی سوچ کسی اور ہی سطح پر جا کھڑی ہوتی ہے۔ مجھے یہ دنیا اپنے ایک برس کے بچے کے لئے ایک خطرناک جگہ لگی۔ اور میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ زندگی کسی بھی لمحے اپنی بے رحمی کا اظہار کر سکتی ہے۔ لھذا لازم ہے کہ میرے بچے جسمانی، روحانی، اعصابی، نفسیاتی و علمی ہر لحاظ سے بہت مضبوط ہوں۔ ایسا ہونے کے لئے لازم تھا کہ انہیں بچپن سے ہی زندگی کی سنگینیوں سے نمٹنے کے لئے تیار کیا جاتا۔ آنے والے عرصے میں بچوں کی نشو و نما میں ایک بنیادی اصول یہ اپنا لیا کہ انہیں عمر اور ذہنی سطح کے مطابق سنگینیوں سے خبردار تو کیا لیکن ڈرایا کبھی نہیں۔ اگر کبھی یہ درخت پر چڑھنے لگے تو دل میں یہ خواہش پالی کہ بہت بلندی سے نہیں لیکن یہ درخت سے گر ضرور جائیں۔ اور جب کبھی ایسا ہوا تو ان سے یہ نہیں پوچھا کہ درخت پر کیوں چڑھے ؟ بلکہ یہ پوچھا کہ چڑھتے ہوئے غلطی کیا کی کہ گر پڑے ؟ یوں ان میں غلطیوں سے سیکھنے کی عادت پروان چڑھنے لگی۔ چنانچہ انہیں کسی ایڈونچر سے یہ کہہ کر کبھی نہیں روکا کہ ’’چوٹ لگ جائے گی‘‘ بچہ چوٹ کے امکان سے پیچھے ہٹنے کی عادت کا شکار ہوگیا تو بڑا ہو کر کسی چیلنج کو قبول کرپائے گا ؟ ایڈونچر مثبت ہونا چاہئے، لاحاصل نہیں، پھر اگر اسے سر کرتے ہوئے چوٹ لگ بھی گئی تو کیا ہوا ؟ درد اور درماں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ اصول بنانے بہت آسان ہوتے ہیں مگر ہر اصول ایک بڑی آزمائش ساتھ لاتا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب صلاح الدین دس اور طارق آٹھ برس کا تھا۔وہ ایک اتوار کا دن تھا جب اچانک ٹیرس کی جانب سے ایک بھاری دھماکے جیسی آواز آئی ۔ میں دوڑ کر وہاں پہنچا تو پوری ریلنگ غائب تھی۔ پلٹ کر سیڑھیوں سے دوڑتا ہوا اتر ہی رہا تھا کہ دروازاہ کھلا اور دونوں بچے گھبرائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ چونکہ سیمنٹ کی ریلنگ آگے آگے گئی تھی اور یہ پیچھے سے اس پر جاکر گرے تھے سو چہرے کہنیوں اور گھٹنوں پر خراشیں تو تھیں لیکن کوئی گہرا زخم نہ تھا اور ہڈیاں بھی سلامت تھیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے انہیں دیکھ کر میں بہت زور سے ہنس پڑا تھا۔ اب آپ خود سوچئے جس زندگی میں آم اور امرود توڑنے یا گنا کھینچنے جیسی خوبصورت سرگرمی نہ ہو وہ بھی کوئی زندگی ہوئی ؟ محض چوٹ کے ڈر سے بچے کو امرود توڑنے سے روکیں گے تو وہ بڑا ہو کر ستاروں پر کمند ڈالنے کی ہمت جٹا پائے گا ؟ بچپن کی ہر چیز کو آپ بچے کے تربیتی پروگرام کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ یہاں تک اس کی چوٹوں کو بھی اس کے لئے سبق بنا سکتے ہیں۔ بچپن کے یہ چھوٹے حادثات بچے کو ذہنی طور پر بڑی عمر کے بڑے واقعات کے لئے تیار کرتے ہیں۔ میں بارہ برس کی عمر میں اپنے زخمی والد کے سرہانے نہ کھڑا ہوا ہوتا تو شاید میں بھی آج کل کے بعض والدین کی طرح اپنے بچوں کی صورت معاشرے کو وہ نادر العقول نمونے دے کر بیٹھا ہوتا جنہیں مرد کے بجائے ’’نازک اندام مرد‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ بچوں کو حادثات سے ڈرائیں مت، انہیں حادثات اور چیلنجز کا سامنا اور ان کے مقابلے کی تربیت دیجئے۔