لاہور(انور حسین سمرائ)پنجاب کی سابق حکومت کی غلط مالیاتی پالیسوں، ناقص منصوبہ بندی اور بے جا اخراجات کی وجہ گزشتہ پانچ مالی سالوں میں ملکی و غیر ملکی مالیاتی اداورں و حکومتوں سے حکومتی امور چلانے اور ترقیاتی سکیموں کی تکمیل کے لئے بے تحاشا قرض پر انحصار کیا گیا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کے قرض کا حجم جو 2012-13 میں 445 ارب تھا ،جون 2018 میں بڑھ کر 692 ارب 75 کروڑ ہوگیا تھا۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی قیادت میں چلنے والی حکومت نے کشکول توڑنے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے عوام پر مزید247 ارب 75 کروڑ قرض کا بوجھ ڈالاتھا۔ اس کے علاوہ شہباز شریف کی مئی میں حکومت آئینی مدت پوری ہوکر جب ختم ہوئی تو اس وقت صوبے کا خزانہ 94 ارب کے خسارے میں تھا۔بجٹ دستاویزات کے مطابق پنجاب کی صوبائی حکومت ہرسال اس قرض پر 16 ارب کا سود ادا کرتی ہے ۔روزنامہ 92 نیوز کی تحقیقات اور نئی حکومت کی طرف سے جاری کردہ وائٹ پیپر کے مطابق صوبہ پنجاب پر جون 2018 تک اندرونی و بیرونی قرض کا حجم692 ارب 75 کروڑ تھا جس میں ملکی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرض کا حجم 10 ارب 89 کروڑ جبکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ممالک سے لئے گئے قرض کا حجم 681 ارب 85 کروڑ ہے ۔ ان قرضوں میں 98 فی صد بیرونی مالیاتی اداروں جن میں آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ایشیا ڈویلپمنٹ بنک اور غیر ملکی ممالک خاص طور پر چین اور فرانس سے حاصل کئے گئے تھے ۔ غیر ملکی اداروں سے لیے گئے قرض کو 10 سال میں واپس کرنا ہے جبکہ وفاق اور ملکی مالیاتی اداروں سے لیا گیا قرض 25سال میں قابل واپسی ہے جس پر 11.3 فی صد کے حساب سے سود بھی ادا کرنا ہے ۔ پنجاب کی سابق حکومت نے اپنے پانچ سالہ دورے حکومت میں حکومتی امور چلانے اور ترقیاتی سکیموں کی تکمیل کے لئے کافی حد تک اندورنی و بیرونی قرضوں پر انحصار کیا تھا۔ پنجاب حکومت پر مالی سال 2012-13 میں کل 445 ارب کا قرض تھا جو مالی سال 2013-14 میں 452 ارب ہوگیا تھا جبکہ اگلے مالی سال 2014-15میں یہ قرض 458 ارب کی حد عبور کرگیا تھا۔ مالی سال 2015-16 میں قرض 533 ارب ہوگیا تھا جو مالی سال 201-17 میں 558 ارب 71 کروڑ ہوگیا تھا اور مالی سال 2017-18 میں یہ قرض692 ارب75 کروڑ کے حد عبور کرچکا تھا۔محکمہ خزانہ پنجاب کے اہلکار کے مطابق زیادہ تر قرض ترقیاتی کاموں کے لئے بہت کم سود پر حاصل کئے گئے تھے ۔ سب سے بڑا قرض لاہور اورنج لائن میڑو ٹرین کے لئے 165 ارب کا لیا گیا جو 20 سال میں 230 ارب واپس کرنا ہوگا۔صوبائی وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت نے بجٹ تقریر میں کہا کہ سابق حکومت کی کمزور مالیاتی پالیسوں اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے گزشتہ مالی سال کے اختتام پر صوبائی حکومت پر 1100 ارب کا قرض تھا جس میں گندم کی خریداری کیلئے لیا گیا قرض 446 ارب 50 کروڑ بھی شامل تھا۔