معزز قارئین! 7 فروری کو ’’ سُلطان اُلعارفین ‘‘ حضرت سُلطان باھوؒ کا یومِ وِصال منایا گیا۔ 9 فروری کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ حضرت سُلطان باھوؒ ،علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ !‘‘ ۔ جس میں مَیں نے حضرت سُلطان باھوؒ کے اشعار کے حوالے سے ، علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں ’’ نظریۂ پاکستان‘‘ بیان کِیا تھا۔ 7 فروری ہی کو تحریک ِ پاکستان کے نامور کارکن ، شاعر ، ادیب، محقق اور مؤرّخ ،مُفسرِ اقبالیات پروفیسر مرزا محمد منّور صاحب کی 19 ویں برسی کے موقع پر سب سے بڑی تقریب لاہور میں ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ’’ ڈیرے‘‘ ( ایوانِ کارکنانِ تحریک ِ پاکستان) میں منعقد ہُوئی۔ تقریب کا اہتمام ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور کارکنانِ ’’تحریکِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے اشتراک سے کِیا گیا ۔ بلال ساحلؔ نے تلاوتِ قرآن اور نعت خوانی کی سعادت حاصل کی۔ مسندِ صدارت پر تحریکِ پاکستان کے نامور ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن اور سینئر وائس چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد صاحب تھے ۔ تقریب کیا تھی؟۔ پروفیسر مرزا محمد منّور کے ’’منّور فکر ‘‘( بیدار مغز) دوستوں، رشتہ داروں اور عقیدت مندوں کا ایک پُر وقار اجتماع تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد ، پروفیسر مرزا منّور کے شاگردِ رشید وؔ جمیل، برادرِ عزیز و محترم جمیل اطہر قاضی ، پروفیسر مرزا محمد منّور کے بیٹے پروفیسر محمد یوسف عرفان ، داماد صلاح اُلدّین ایوؔبی ، نواسے متین صلاح اُلدّین ، سیّد شاہد رشید اور راقم اُلحروف نے اپنے اپنے انداز میں پروفیسر مرزا محمد منّور سے اپنا تعلقِ خاطر بیان کِیا اور اُن کے اوصافِ حمیدہ کا بھی ۔ علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ سے مرحوم کی عقیدت اور محبت کی داستان بیان کی ، اُن کے علم و فضل کا تذکرہ ، اردو ، فارسی اور عربی کے شاعر اور ماہر اقبالیات کی حیثیت سے اُن کی بین الاقوامی شہرت کا بھی اُنہیں خراجِ تحسین بھی پیش کِیا گیا۔مرزا محمد منّور کی نواسی ڈاکٹر عنبرین صلاح اُلدّین نے اپنے نانا کی خدمت میں نظم کی صُورت میں خراج عقیدت پیش کِیا۔ انعام اُلرحمن گیلانی، نواب برکات محمود اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے دیگر خواتین و حضرات کی خصوصی شرکت بھی اُن کا ،کارِ ثواب تھا۔اُس موقع پر مجھے علاّمہ اقبالؒ یاد آئے ۔ مَیں عِلم کے سمندر ؔکے بارے میں اُن کی ایک فارسی نظم کے دو شعروں کا ترجمہ پیش کر رہا ہُوں ۔ نظم میں علاّمہ نے خود ہی سوال کِیا اور خود ہی اُس کا جواب بھی دِیا۔ سوال تھا کہ ’’ یہ کیا سمندر ہے ؟ کہ عِلم جس کا ساحل ہے؟ اور اُس کی تہ سے کون سا موتی حاصل ہوتا ہے؟‘‘۔ جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ ’’ جو چیز اِس کے سامنے آتی ہے ، وہ اِس کے شعور سے فیض یاب اور منّورؔ ہو جاتی ہے ‘‘۔ عربی زبان کے الفاظ منّورؔ اور منّورہ ؔکے ایک ہی معنی ہیں ۔ یعنی۔’’ روشن کِیا گیا ، روشن اور چمکتا ہُوا‘‘۔ نہ صِرف پاکستان بلکہ بیرونِ پاکستان بھی پروفیسر مرزا محمد منّور سے فیض یاب ہونے کے بعد منّور ؔہو جانے والے صاحبانِ علم وفضل ، اربابِ قلم ، اساتذہ اور ماہرین ِ تعلیمات و اقبالیات بے شمار ہیں۔ پروفیسر مرزا محمد منّور کی یادوں کو تازہ کرنے کا "Idea" 1958ء میں گورنمنٹ کالج لائل پور ( اب فیصل آباد) میں پروفیسر مرزا محمد منّور کے شاگرد چیف ایڈیٹر روزنامہ ’’ جرأت ‘‘ جمیل اطہر قاضی کا تھا۔ مَیں نے تو ہاں میں ہاں ملائی تھی ؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے تو، بہت پہلے کہہ دِیا تھا کہ … مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اِس ظلمات میں! جس طرح تارے چمکتے ہیں ،اندھیری رات میں ! معزز قارئین!۔ قیام پاکستان کے بعد1947ء میں ، تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان کی قیادت میں ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا تھا۔ مرزا محمد منّور کے والد صاحب ، مرزا ہاشم اُلدّین خان ہمارے پڑوسی تھے ۔ اُن سے میرے والد صاحب کی دوستی ہوگئی اور چھوٹے بیٹے مرزا محمد مظفر سے میری ۔ ہم دونوں کی دوستی ہوگئی اور ہم (1957ء سے 1961ء )تک "B-A Final" تک ایک دوسرے کے کلاس فیلو رہے ،ساری زندگی ہماری دوستی رہی ( اب بھی ہے)۔ ممتاز دانشور، ماہر اقبالیات، بزم اقبال، حکومت پنجاب کے "Consultant" معروف کالم نگار ، ’’نظریۂ پاکستان فائونڈیشن‘‘ کے سابق ڈائریکٹر ریسرچ علاّمہ پروفیسر محمد مظفر مرزا کا انتقال ہُوا تو، 10 دسمبر کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں ’’ میرا یار مظفرّمرزا …!‘‘ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہُوا۔ پروفیسر مرزا محمد منّور میرے برادرِ بزرگ تھے اور وہ، مجھے اپنا چھوٹا بھاؔئی کہتے تھے ۔ 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو، چند دِن بعد پروفیسر مرزا محمد منّور اور پروفیسر مرزا محمد مظفر مجھے مبارک باد دینے کے لئے آئے۔ 1987ء میں مَیں نے اپنا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بنا لِیا لیکن، جب بھی مَیں لاہورآتا تو برادرِ بزرگ پروفیسر مرزا محمد منّور اور برادرِ عزیز پروفیسر مرزا محمد مظفر سے میری ملاقات ضرور ہوتی۔ 27 اپریل 1991ء کو روزنامہ ’’ پاکستان‘‘ لاہور / اسلام آباد میں بھلوال ( ضلع سرگودھا) کے قائداعظمؒ کے سپاہی اور تحریکِ پاکستان کے کارکن چودھری میاں خان کے انتقال اور اُن کی قومی خدمات پر میرا کالم شائع ہُوا تو، مجھے پروفیسر مرزا محمد منّور کی طرف سے ڈاک میں ایک خط ملا ۔ خط میں اُنہوں نے چودھری میاں خان کو اپنا پیر بھائی لکھا اور کہا کہ ’’چھوٹے بھائی اثر چوہان!۔ تُم نے اپنے کالم میں میرے پیر بھائی چودھری میاں خان پر عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کئے ۔ شاباش ہے تُم پر ‘‘۔ معزز قارئین!۔ میری خوش قسمتی تھی کہ ’’ ستمبر 1991ء میں مجھے ،صدرِ پاکستان غلام اسحق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے (اُن کے ساتھ ) خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ پھر چند دِن بعد پروفیسر مرزا محمد منّور اور پروفیسر مرزا محمد مظفر مجھے مبارک باد دینے کے لئے میرے گھر گلبرگ تشریف لائے۔ اُس وقت انفارمیشن گروپ کے ایک بہت ہی پڑھاکو ؔرُکن (موجودہ Chairman P.E.M.R.A) مرزا محمد سلیم بیگ بھی میرے گھر پر موجود تھے ۔ مرزا محمد سلیم بیگ (1977-76) گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر مرزا محمد منّور کے شاگرد رہے اور بعد ازاں مجلسِ اقبالؒ کی تقریبات میں بھی اپنے اُستادِ محترم سے فیض یاب ہوتے رہے ۔7 فروری 2000ء کو پروفیسر مرزا محمد منّور کا انتقال ہُوا تو، مَیں اسلام آباد میں تھا۔ دو دِن بعد مَیں نے اور مرزا محمد سلیم بیگ نے لاہور آ کر پروفیسر مرزا محمد مظفر سے تعزیت کی۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ’’ 7 فروری 2008ء کو مَیں نے اسلام آباد میں اپنے گھر میں پروفیسر مرزا محمد منّور کی آٹھویں برسی کی تقریب کا اہتمام کِیا۔ مرزا محمد سلیم بیگ سمیت انفارمیشن گروپ کے کئی سینئر ارکان اور علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ 10 اشعار کی نظم کے صِرف پانچ شعر پیش پیش قارئین ہیں ۔ یہ نظم مَیں نے 7 فروری 2018ء کی تقریب میں پیش کی تھی تو ، تقریب کے شُرکاء آبدیدہ ہوگئے اور اور مَیں خود بھی … مِرزا ہاشم دِین خاں کے ،دِیدہ وَر ،لختِ جِگر! نام تیرا ہے مُنّور، صُورتِ شَمس و قمر! …O… شارِ حِینِ شاعرِ مشرقؒ کا ، تُو ہے تاجدار! مرحبا ، اے قائداعظمؒ کے رُوحانی ِپسَر! …O… بے نظیر اور مُنفرد ہے ، تیرا اندازِ بیاں! تیرا ذوقِ آگہی، اَفلاک سے بھی بَا لا تر! …O… تیرہ بَخثوں کے لئے ،تُو نے سجائی کاہ کَشَاں! جَگمگا اُٹھے، حیاتِ جاودِاں کے بام و دَر! مَیں بھی ہُوں نازاں اثرؔ ، مِرزا مُظفّر کی طرح! کُوچۂ مرزا مُنّور میں ، تھا میرا بھی گُزر! معزز قارئین!۔ برادرِ بزرگ مرزا محمد منّور کا یہ مجھ پر احسان ہے کہ ایک دِن اُنہوں نے میری فرمائش پر مجھے ماڈل ٹائون لاہور میں قومی ترانہ کے خالق جناب حفیظ جالندھری صاحب کے گھر لے جا کر ان سے ملوایا تھا ۔ اِس ملاقات کے بارے میں ’’21دسمبر کا۔ دِن!‘‘کے عنوان سے 23 دسمبر 2016ء میں ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم شائع ہو چکا ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ارضِ پاک کی اِن دونوں شخصیات کو جنت اُلفردوس میں جگہ دیں اور اُن کے درجات بلند کریں!۔