یہ 11 ستمبرکا دن تھا اور ہم ایوینجلیکل لیڈروں کے ایک گروپ کے ساتھ العلا میں تھے۔ہم دن کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب کے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں گزار چکے تھے۔ہم میں سے بعض دوستوں (اور ناقدین) نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ایوینجلیکلز کا ایک گروپ سعودی عرب کا ایک ایسے دن کے موقع پر دورہ کررہا ہے جس کے ساتھ بہت سی خوف ناک یادیں وابستہ ہیں لیکن دراصل ہم یہ یقین رکھتے تھے کہ سعودی عرب کا دورہ کرنے کا یہی ایک بہترین اور مناسب موقع ہوسکتا ہے تاکہ ہم اس امر پر توجہ مرکوز کرسکیں کہ سعودی مملکت کو کس طرف جانا چاہیے،وہ کہاں جاسکتی ہے اور ہمارے یقین کے مطابق وہ کہاں جارہی ہے؟ ہم مایوس نہیں ہوئے! سعودی ولی عہد اپنے ویژن سے متعلق بہت پْرجوش ہیں اور وہ جن بھی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں،انھیں ان پر مکمل گرفت ہوتی ہے۔کئی گھنٹے تک انھوں نے ان تمام سوالوں کے جواب دیے جو ہم نے ان سے پوچھے تھے۔ انھوں نے براہ راست اور فکر انگیز جوابات دیے اور اکثر وہ ہمارے سوال پوچھنے سے قبل ہی جواب دے دیتے تھے۔ انھیں ان موضوعات پر بھی گفتگو میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا، جن پر ہمارے درمیان عدم اتفاق پایا جاتا تھا۔نئے سعودی عرب میں جو حقیقی معنوں میں مختلف چیزیں ہورہی ہیں ،العلا ہمیں ان میں کا ایک معمولی سا نمونہ لگا ہے۔العلا کے تاریخی آثار نباطین کی بادشاہت کے دور کی یادگار ہیں۔یہ الانباط کی بادشاہت کے مشہور جنوبی دارالحکومت البتراء (بطرا) کے نزدیک واقع تھا۔( یہ شہر مدینہ منورہ سے قریباً تین سو کلومیٹر شمال میں واقع ہے) یہ تاریخی اہمیت کا حامل علاقہ زائرین اور سیاحوں کے لیے بند تھا۔اس کی ایک جزوی وجہ یہ تھی کہ سعودی مملکت میں بعض لوگ کسی بھی تفریح کے خلاف عمومی تعصب رکھتے ہیں اور زیادہ تر انتہا پسند تو العلا کی تاریخی باقیات کو بالکل اسی طرح ختم کرناچاہتے ہیں جس طرح افغان طالبان نے بامیان میں بدھا کے مشہورعالم مجسمے کو ڈھا دیا تھا۔اب تو العلا ایک راسخ العقیدہ مذہبی معاشرے کی جانب سے جدّت کو دوبارہ خوش آمدید کہنے کی ایک روشن علامت بن چکا ہے۔ وہ مملکت کی قدامت پسندی یا اس کے دین کی کسی طرح سے بھی بے توقیری کے معاملے میں بہت محتاط اور حساس ہیں جبکہ وہ اس کا جدید دنیا کے ساتھ توازن قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم نے امریکیوں کی اس ملفوف تنقید کا بھی نوٹس لیا ہے جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ مملکت میں تبدیلی تیزی سے رونما نہیں ہورہی ہے:’’ یاد رکھیں آپ کو زیادہ مکمل یونین بننے میں صدیاں لگیں گی اور ہماری مملکت کو مکمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘ایک بات تو یقینی ہے، مملکت سعودی عرب میں ایک تاریخی تبدیلی رونما ہورہی ہے۔یہ مذہبی پولیس کی عدم موجودگی سے ظاہر تھی۔یہ اس کے نوجوان کاروباریوں اور سائنس دانوں کے خواہشات پر مبنی آئیڈیا سے بھی ظاہر تھی۔یہ سب اس سال کے اعتدال پسندی پر مبنی ’’اعلانِ مکہ‘‘ کی مشمولہ زبان سے بھی ظاہر تھا۔اس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شہریوں اور اقلیتوں کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔یہ سب علمی کام جناب شاہ سلمان کے زیر سرپرستی اور رابطہ عالمِ اسلامی کے سربراہ شیخ محمد العیسیٰ ایسے نامور اسکالروں کی نگرانی میں ہوا ہے۔سعودی عرب میں کنسرٹس اور فلم تھیٹروں کو متعارف کرانے اور مساجد سے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ انتہا پسند علماء کی فارغ خطی سے ہم بہت متاثر ہوئے اور اعتدال مرکز (عالمی مرکز برائے انسداد انتہا پسند نظریات) کے قیام سے بھی ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔یہ مرکز سوشل میڈیا پر متشدد انتہا پسندی سے حقیقی وقت میں نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔شاید سب سے اہم اور زبردست چیز یہ ہوئی تھی کہ ہمارے قیام کے دوران میں ولی عہد کے مشیروں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ہم الریاض میں قائم شاہ فیصل مرکز برائے تحقیق اور اسلامی مطالعات سے تعلق رکھنے والے سینیر اسکالروں کی بریفنگ میں شرکت کریں۔اس بریفنگ میں اسلامی سکالروں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عیسائیوں اور یہود سے پْرامن تعلقات کی ایک مدت سے نظرانداز شدہ تاریخ کو اجاگر کیا اور بتایا کہ یہود اور عیسائی ساتویں صدی عیسوی میں (جزیرہ نماحجازِ) عرب میں رہتے اور کام کرتے رہے تھے۔ ہمیں ’’میثاقِ مدینہ‘‘ ایسی تاریخی دستاویز کے بارے میں بتایا گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطوط کے بارے میں آگاہ کیا گیا جو انھوں نے مختلف عیسائی کمیونٹیوں کو لکھے تھے لیکن انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔اس کے باوجود انھیں اپنے عقیدے کے مطابق عمل کی آزادی دی گئی تھی۔انھیں اپنے گرجا گھروں میں کسی مداخلت کے بغیر آزادی سے جانے کی اجازت تھی اور ان کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے گرم جوشی پر مبنی شاندار تعلقات استوار تھے۔ ہمیں غلط نہ سمجھیے۔ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ مملکت کو ابھی بہت کچھ تبدیل ہونے کی ضرورت ہے. ہم نے ان آراء کا بڑے واضح اور دوستانہ انداز میں اظہار کیا ہے لیکن جہاں کریڈٹ بنتا ہے، وہاں ہم تبدیلی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ کریڈٹ دینے کو تیار ہیں۔ایسا ہم ایک مخلص دوست کی حیثیت میں کررہے ہیں اور حقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ تبدیلی میں ابھی اتنا ہی وقت لگے گا جتنا کسی تعمیر میں وقت لگتا ہے۔ آخر کارسعودی ولی عہد کا ویژن 2030ء ہے ،ویژن 2020ء نہیں ہے۔