پنجابی کی کہاوت ہے’’نانی نے خصم کیتا بُرا کیتا‘ کر کے چھڈ دتا ہور وی بُرا کیتا‘‘ موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری اندرونی اختلافات ‘ جلد بازی اور غیر مستقل مزاجی سے اس کے نظریاتی کارکن‘ خیر خواہ اور پاکستان میں سیاسی استحکام کے خواہش مند حلقے دل شکستہ ہیں۔ عمران خان میاں شہباز شریف کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے حق میں نہ تھے‘ وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد قوم کو یہی تاثر دیتے رہے ‘مگر ایک دن میاں شہباز شریف چیئرمین بن گئے‘ کیسے بنے؟ تحریک انصاف پارلیمنٹ کی اکثریتی پارٹی اور برسر اقتدار ہے اس کی مرضی کے بغیر بن نہیں سکتے تھے‘ مگر عمران خان اور ان کے قابل اعتماد ساتھیوں کے بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ان کی مرضی کے بغیر چیئرمین بنے ع اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا دانش مندی کا تقاضا یہ تھا کہ جب خاطر سے یا لحاظ سے شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی مان لیا تو دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کے بجائے حکومتی ارکان کو پابند کیا جاتا کہ وہ اجلاس میں پوری تیاری کرکے جائیں اور اپوزیشن کے گٹھ جوڑ کو بے اثر کر کے سابقہ دور حکومت کی جملہ بے ضابطگیوں‘ بداعمالیوں اور اقربا پروری کا نہ صرف پردہ چاک کریں بلکہ مختلف محکمہ جات میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر بنے پیرا جات کو کسی صورت منظور نہ ہونے دیں‘مگر ہوا کیا؟۔ 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئیں تو حکومت اور اپوزیشن کے ارکان میں بمشکل بیس پچیس ارکان کا فرق تھا‘ عددی اعتبار سے پاکستان کی مضبوط ترین اپوزیشن کی قیادت میاں نواز شریف کر رہے تھے ‘میں نے ممتاز پارلیمنٹرین حاجی سیف اللہ مرحوم سے پوچھا کہ اس قدر مضبوط اور حکومتی کاروبار کا تجربہ رکھنے والی اپوزیشن حکومت کو کیسے چلنے دے گی؟۔ حاجی سیف اللہ خان1970ء کے عشرے میں اس منحنی اپوزیشن کا حصہ تھے جس نے پنجاب اسمبلی میں غلام مصطفی کھر اور صادق حسین قریشی کی طاقتور‘ ہتھ چھٹ حکومت کا ناک میں دم کئے رکھا جبکہ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کی غیر جماعتی پارلیمنٹ کو آٹھویں آئینی ترمیم کے ہنگام انوکی لاک لگایا۔ جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو وزیر قانون اقبال احمد خان اور اٹارنی جنرل عزیز اے منشی کی یہ کہہ کر کلاس لی کہ ’’ایک حاجی سیف اللہ تمہاری اکثریت‘عقل و دانش‘ سیاسی تجربے اور قانونی مہارت کو مات دے گیا‘‘ یہ اکیلا حاجی سیف اللہ خان تھا جس نے آٹھویں آئینی ترمیم کا پہلا مسودہ حکومت کو واپس لینے پر مجبور کیا اور آٹھویں ترمیم پر بحث کو کئی ماہ تک طول دیا۔ آٹھویں ترمیم پر مذاکرات کے دوران ایک موقع پر جنرل ضیاء الحق نے دھمکی دی کہ اگر پارلیمنٹ نے اس ترمیم کی منظوری نہ دی جس میں فوجی آمر کو شاہانہ اختیارات دیے گئے ہیں تومیں اسے توڑ دوں گا۔ حاجی صاحب نے کہا شوق سے‘ اس دھمکی پر عمل کر کے دیکھیں۔1988ء میں ضیاء الحق نے اسمبلی توڑی تو پتہ چلا کہ وہ زندگی کی سب سے بھیانک غلطی کر بیٹھے۔ میاں نواز شریف کی سربراہی میں اسّی نوے ارکان پر مشتمل اپوزیشن کے بارے میں حاجی صاحب نے کہا کہ اپوزیشن کمزور یا مضبوط نہیں اہل یا نااہل ہوتی ہے۔ بھٹو اور ضیاء الحق کی عددی لحاظ سے کمزور اپوزیشن اہل تھی ‘دونوں آمروں کو ناکوں چنے چبوائے‘ دیکھتے ہیں موجودہ اپوزیشن کون سا معرکہ مارتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپوزیشن اگر اہل‘ لائق اور بیدار مغز ہو تو وہ تعداد میں کم بلکہ نہ ہونے کے برابر بھی حکومت کو نکیل ڈال سکتی ہے لیکن اگر یہ تماش بینوں کا ٹولہ اور مفادات و مراعات کی رسیا ہو تو کار حکمرانی میں ہرگز خلل انداز نہیں ہو سکتی۔ موجودہ اپوزیشن تجربہ کار تو ہے لیکن مضبوط اسے روزبروز حکومت میں شامل وہ نالائق وزیر اور ارکان پارلیمنٹ کر رہے ہیں جو کسی اجلاس میں تیاری کر کے آتے ہیں نہ کسی قائمہ کمیٹی میں اپنے علم‘ مطالعے اور چابکدستی سے اپوزیشن کو مرعوب کرتے اور نہ پارلیمانی روایات کے تحت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اپوزیشن کو من مانی سے روک پاتے ہیں۔ تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو اس کے ارکان قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے‘ نہ کارروائی میں دلچسپی لیتے۔ ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامہ میں ترمیم کی منظوری جس کمیٹی نے دی ۔ اس میں تحریک انصاف کے شفقت محمود شامل تھے مگر انہیں واردات کا پتہ ہی نہ چلا ‘اسمبلی میں بل پیش ہوا تو تحریک انصاف کے کسی رکن نے توجہ نہ دی‘ شیخ رشید نے شور مچایا تو عوام آگاہ ہوئے اور شفقت محمود وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ دو تین روز قبل محترمہ مریم نواز شریف کے سمدھی چودھری منیر کی ہدایت اللہ کمپنی کے حوالے سے کیس پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے آیا تو حکومتی ارکان منزہ حسن‘شبلی فراز‘ ریاض فتیانہ ‘ عامر ڈوگر میں سے کسی نے یہ اعتراض نہ کیا کہ میاں نواز شریف دور حکومت اور رشتہ دارکے معاملے پر غور کرنے والی کمیٹی کی صدارت میاں شہباز شریف کو نہیں کرنی چاہیے ۔نہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ مریم نواز شریف کے سمدھی کو ریلیف دیا جا رہا ہے اور وہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اپوزیشن کے اتحاد کو ناکام بنائیں۔ سردار نصراللہ خان دریشک نے اعتراض تو کیا مگر کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا حتیٰ کہ پیپراکے چیئرمین اور ڈی جی کو کسی نے بولنے نہ دیا اور تحریک انصاف کے ارکان ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویربنے‘ وقت گزارا کیے۔ عمران خان اپنے ارکان کی گوشمالی کرنے کے بجائے شہباز شریف کی چیئرمینی پر برہم اور چاہتے ہیں کہ اکثریت کے بل بوتے پر اپوزیشن لیڈر کو اس منصب سے محروم کر دیں جو حکومت اور اس کے سپیکر نے خود عطا کیا ہے۔ بجا کہ نیب کے ایک ملزم کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں ہونا چاہیے یہ فواد چودھری کے بقول خربوزوں کی رکھوالی پر گیدڑ بٹھانے کے مترادف ہے مگر سوال یہ ہے کہ نانی کو اس بارے میں خصم کرنے سے قبل سوچنا چاہیے تھا‘ اگر پارلیمانی روایات کے مطابق ایوان کو چلانے کے لئے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا گیا تو اب یو ٹرن لینے سے کیا حاصل؟ جبکہ پنجاب میںاپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے‘‘بہتر ہے کہ کمیٹیوں میں شامل حکومتی ارکان کو اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کا پابند کیا جائے‘ عمران خان خود بارہ چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں قائمہ کمیٹیوں کے ارکان اور وفاقی وزیروں‘ مشیروں‘ پارلیمانی سیکرٹریوں کو بھی کام کی عادت ڈالی جائے‘ وہ ہر اجلاس میں تیاری کر کے جائیں اور اپوزیشن کے تجربہ کار ارکان سے مرعوب ہونے کے بجائے انہیں قدم قدم پر کنفرنٹ کریں اور کوئی ایسا پیرا منظور یا سیٹل نہ ہونے دیں جو سابقہ دو حکومتوں کی بے قاعدگی‘ بے ضابطگی اور لوٹ مار کا مظہر ہو‘ جس پر آڈٹ اینڈ اکائونٹس یا کوئی دوسرا ادارہ معترض ہے۔ اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ موجودہ پارلیمانی نظام حکومت اور مکا مکا کی سیاست کرپشن اور لوٹ مار کے انصافی ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ ہے اور تحریک انصاف میں ایک ٹولہ اپوزیشن سے اپنے تعلقات برقرار اور بہتر رکھنے کے شوق میں ایسے اقدامات اور فیصلوں پر مُصر ہے جس سے اس کی بائیس سالہ جدوجہد اکارت ہونے کا اندیشہ ہے تو وہ قوم کو کھل کر بتائیں‘کسی غیر مرئی قوت کی طرف سے دبائو کا شکار ہیں تو اس بارے میں بھی عوام کو اعتماد میں لیں اور اشاروں کنایوں میں بات کرنے کے بجائے فطری انداز میں صاف گوئی کا مظاہرہ کریں جو ان کی وجہ شہرت ہے بصورت دیگر لوگ یہی کہیں گے کہ نانی نے خصم کیتا بُرا کیتا کر کے چھوڑ دیتا ہور بُرا کیتا۔ حکومت بنتی اکثریت کی بنا پر ہے چلتی اہلیت اور بصیرت کے بل بوتے پر ہے۔چیخ پکار کے بجائے اہلیت و بصیرت حضور!