پریس کانفرنس میں وفاقی وزیروں شفقت محمود‘ فواد چودھری اور شبلی فراز کو الیکشن کمیشن آف پاکستان پرگرجتے برستے دیکھ کر اردو زبان کا پامال محاورہ یاد آیا‘ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘ موجودہ الیکشن کمیشن کے سربراہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے قابل اعتماد مشیر سعید مہدی کے داماد ہیں، ممکن ہے بطور بیوروکریٹ ان کی ہمدردیاں بھی مسلم لیگ ن یا شریف خاندان کے ساتھ ہوں مگر راجہ سکندر کا نام عمران خان نے اپنے ایک غیر سیاسی مشیر کی سفارش پر پیش کیا‘ آئینی تقاضوں کے مطابق قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف کے مشورے پرانہیں حکومت نے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا مگر اب پورا الیکشن کمیشن ہی حکمرانوں کو متنازعہ اور غیر جانبدار نظر آ رہا ہے۔ چراکارے کند عاقل کہ بازآید پشیمانی (عقلمند وہ کام ہی کیوں کرے جس کے نتیجے میں اسے پشیمان ہونا پڑے) ہمارے سیاستدانوں کی یہ عجیب سی عادت ہے کہ کسی اہم منصب پر تقرر کرتے وقت بامقصد مشاورت کی ضرورت محسوس کرتے ‘ نہ مطلوبہ شخص کی اہلیت و صلاحیت‘ کردار کا جائزہ لیتے اور نہ موزونیت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ کسی قریبی دوست‘ رشتے دار یا کاروباری حصے دار نے سفارش کردی‘ وفاداری اور ہر جائز و ناجائز معاملے میں تابعداری کا یقین دلا دیا تو اعلیٰ سرکاری منصب پر تقرر منظور‘ ماضی سے واقفیت نہ تجربہ و قابلیت کی اہمیت اور نہ وسیع تر مشاورت کا تکلف۔موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقرر مسلم لیگ کے وزیراعظم اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف نے باہمی مشاورت سے کیا۔ مگر وہ دن اور آج کا دن شریف خاندان اور زرداری خاندان کا رونا دھونا ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ چیئرمین نیب کسی سے رورعایت پر تیار ہیں نہ شریف خاندان کے مشورے بلکہ منت سماجت پر منصب چھوڑنے کے موڈ میں‘ کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکا کہ دوران حکمرانی اُن سے اور ان کے عزیز و اقارب‘ دوست احباب اور کاروبار میں شراکت داروں سے کیا غلطیاں ہوئیں؟ یہ بھی توفیق نہیں کہ اپنے انداز مشاورت کو ناقص اور بچگانہ قرار دے دیں‘ یہی حال اب عمران خان اور ان کے دانا مشیروں کا ہے۔ ڈاکٹر شفیق چودھری پنجاب کے وزیر ایکسائز و ٹیکسیشن تھے تو راجہ سکندر ان کے ماتحت ڈائریکٹر کے منصب پر فائز‘ ایک بار تبادلہ پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے جواب طلبی کی، اس نے پوری جرأت اور ایمانداری سے اپنی غلطی تسلیم کی‘ ذمہ دار اس وقت کے سیکرٹری ایکسائز کو قرار دیا جو ان کے دفتر میں آ کر باصرار تبادلہ کرا گئے‘ کہ وزیراعلیٰ کے صاحبزادے کا دبائو تھا۔ انہوں نے نتائج و عواقب کی پروا کئے بغیر تحریری طور پر اپنی غلطی اور سیکرٹری کی مداخلت و دبائو کا اعتراف کیا اور آئندہ وزیر موصوف کے احکامات‘ محکمے کی طے شدہ پالیسی پر من و عن عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔ چیف الیکشن کمشنر مقرر کرتے وقت وزیر اعظم اور ان کے پرنسپل سیکرٹری‘ بااعتماد ساتھیوں اور قریبی مشیروں کے علم میں ہو گا کہ راجہ سلطان سعید مہدی کے داماد ہیں اور ان کی ہمدردیاں امکانی طور پر مسلم لیگ ن یا شریف خاندان کے ساتھ ہو سکتی ہیں‘ اپنے تقرر کے بعد وہ اپوزیشن کے دبائو کا مقابلہ کرتے رہے جو فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کو فی الفور نااہل قرار دلانے کے لیے بے قرار ہے اور الیکشن کمیشن کو جانبدار باور کرانے کے درپے‘ ڈسکہ الیکشن سے پہلے وفاقی حکومت نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو کم و بیش تمام قانونی و آئینی ماہرین اور 1973ء کے آئین کا بغور مطالعہ کرنیوالے تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ یہ کام آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں، سپریم کورٹ سے رجوع کرکے حکومت نے اپنے لیے سبکی کا اہتمام کیا ہے مگر حکومت کے قانونی مشیروں نے کسی کی نہیں سنی‘ عدالت عظمیٰ میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن نے آئینی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنی رائے دی تو سرکاری مشیروں نے اپنی نالائقی اور جہالت کا اعتراف کرنے کے بجائے خان صاحب کے کان بھرے کہ الیکشن کمیشن ہماری بجائے اپوزیشن کے موقف کی حمایت کر رہا ہے۔ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ سپریم کورٹ کا رخ کرنے سے پہلے حکومت الیکشن کمیشن سے بامقصد مشاورت کرتی‘ اس کا نقطہ نظر معلوم کر لیتی تو خفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ڈسکہ کے الیکشن میں دنگا فساد ہوا‘ دو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں وہ الیکشن کمیشن کے ماتھے پر بدنما داغ ہے لیکن پنجاب حکومت کی نااہلی کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا جا سکتا ہے نہ بیس پریذائیڈنگ افسروں کی کئی گھنٹے تک گمشدگی کا ذمہ دار اکیلا راجہ سلطان ہے۔ خان صاحب اپنے وسیم اکرم پلس سے کیوں نہیں پوچھتے کہ ان کے مقرر کردہ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر‘ ڈی آئی جی‘ ڈی پی او پولنگ ڈے پر اپنے فرائض انجام دینے میں کیوں ناکام رہے اور تحریک انصاف کے لیے جگ ہنسائی کا بندوبست کیا؟ سینٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے‘ جمہوریت کے منہ پر کالک ملی گئی‘ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کا دامن صاف ہے نہ حکومت اور اپوزیشن بری الذمہ ۔ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر سے شکایات حکومت کی طرح اپوزیشن کو ہیں اور عام شہری بھی اس کے کردار سے مطمئن نہیں مگر وفاقی وزیروں کا پریس کانفرنس کے ذریعے استعفیٰ کا مطالبہ ذوقی اور بے تدبیری کی انتہا ہے۔ حکومت اور وزیراعظم کے پاس معلومات کے لامحدود ذرائع ہیں‘ درجن پھر خفیہ ایجنسیاں معاونت کے لیے موجود اور طاقتور اداروں کی پشت پناہی حاصل‘ اگر چیف الیکشن کمشنر اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے ایسی ویسی معلومات اور دستاویزی شہادتیں موجود ہیں تو انہیں کسی بھی آبرومندانہ طریقے سے استعفے دینے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ منصب سے معزول کرنے کا آئینی و قانونی طریقہ کار بھی موجود ہے اور ان کے متنازعہ فیصلوں کو چیلنج کرنے کے لیے عدالتوں کے دروازے حکومت و اپوزیشن دونوں کے لیے کھلے ہیں‘ اگر ڈسکہ اور سینٹ الیکشن پر حکومت کا موقف مضبوط ہے تو یقینا اعلیٰ عدلیہ سے ریلیف ملے گا اور پھر حکومت الیکشن کمیشن کے بارے میں اپنے خدشات اور اندیشوں میں حق بجانت ہوگی مگر وفاقی وزیروں کی پریس کانفرنس سے کچھ اور ہی تاثر ابھرتا ہے‘ نانی نے خصم کیا برا کیا‘ کرکے چھوڑ دیا اور بھی برا کیا۔ مخالفین اس پریس کانفرنس کے ڈانڈے فارن فنڈنگ کیس سے ملا کر خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنائیں گے اور غیر جانبدار حلقے شکوک و شبہات کا شکار ہوں گے۔ ویسے بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن اگر خود استعفیٰ دیدے تو آئندہ تقرر دانش مندانہ ہو گا۔ قائد حزب اختلاف کے مشورے کے بغیر وزیراعظم نئے الیکشن کمیشن کا تقرر کرنے کے مجاز ہیں نہ اپنے زلفی بخاری‘ اعظم خان‘ فیصل واوڈا ٹائپ مشیروں کے سوا کسی کی سفارش ماننے کے خوگر،عثمان بزدار ان کا حسن انتخاب ہے اور ڈسکہ و سینٹ انتخاب میں ہزیمت اس گوہر یکتا کے ہنر کا شاہکار‘ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے غصہ حکمران ٹولہ الیکشن کمیشن پر نکالنا چاہتا ہے‘ اگلا الیکشن کمیشن بھی اگر ایسا ہی ہٹ دھرم‘ منہ پھٹ اور اپنی مرضی کا مالک نکلا تو؟ڈگی کھوتی توں غصّہ کمہار تے۔