اس خطے میں مروجہ روحانی سلاسل میں چشتی‘ نقشبندی‘ قادری اور سہروردی نمایاں اور معتبر ہیں۔ سلسلہ شاذلیہ اور اس کے شیخ حضرت ابوالحسن الشاذلیؒ کی شخصیت اور احوال و افکار سے تو ہمارے دینی یا روحانی حلقے بھی بہت زیادہ آگاہ نہیں۔۔۔۔ سرکاری یا حکومتی ایوان میں ایسی کسی دینی یا روحانی ہستی کا اعتبار و اعتراف‘ مقام حیرت ہونا ہی تھا۔ایسا ہی مرحلہ دو روز قبل ایوان وزیراعلیٰ میں درپیش ہوا‘ جب مقتدر اور معتبر عمائدین سلطنت واعیان حکومت لاہور میں’’ شیخ ابوالحسن شاذلی صوفی ازم سائنس و ٹیکنالوجی ریسرچ سنٹر‘‘ کے آغاز و افتتاح کے لیے ہمہ تن سرگرم عمل پائے گئے۔ سردار محمد عثمان خان بزدار کے ’’الامین العام‘‘ یعنی پرنسل سیکرٹری طاہر خورشید فیصلہ سازی و عملی اقدامات کی تعیین فرما رہے تھے‘ جس کے مطابق یہ عظیم الشان اور وقیع ادارہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی( کالا شاہ کاکو کیمپس )میں سو ملین کی رقم سے قائم ہوگا، جس کو مذہبی‘ سائنسی اور سماجی علوم کا جدید ترین تحقیقی مرکز بنایا جائے گا۔ پنجاب کے اوقاف و مذہبی امور سمیت ملک کے نامور تعلیمی‘ تحقیقی و مذہبی ادارے مفاہمت کی یادداشت یعنی" Memorandum of "Understanding کے ذریعے اس سے منسلک ہوں گے ،جس کا اہتمام ایک روز قبل یعنی ہفتہ کی شام قذافی سٹیڈیم سے متصل لائبریری کمپلیکس میں محترمہ خاتون اول کی قیادت و سرکردگی میں وقوع پذیر ہوا۔ ڈاکٹر آفتاب زیدی وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی‘ ڈاکٹر بشریٰ مرزا وائس چانسلر لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین‘ نبیل جاوید سیکرٹری اوقاف‘ حسن اقبال سیکرٹری سوشل ویلفیئر‘ ڈاکٹر راغب نعیمی پرنسپل جامعہ نعیمیہ نے فریق دوم کے طور پر اس معاہدہ پر دستخط ثبت کئے جبکہ سیکرٹری سپورٹس فواد ہاشم اس کے فریق اول تھے۔ ایک اور خاص بات یہ کہ منصوبہ تخیل سے تشکیل تک۔۔۔۔ محض اڑتالیس گھنٹے میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور ریسرچ سنٹر ،ای لائبریری ویب پورٹل اور انٹرنیٹ پیج کی لانچنگ کردی گئی۔ یہ مرکز جدید ترین تعلیمی و تحقیقی سہولیات سے آراستہ ہوگا‘ تمام مکاتب فکر کے علما اور دینی اداروں کے اشتراک کے ساتھ صوبہ بھر سے ضلعی صدر مقامات پر موجود لائبریریز کو اس تحقیقی مرکز سے منسلک و متصل کیا جائے گا،جس میں 13کروڑ ای بکس‘ 15کروڑ ای تھیسس اور 78 عالمی ای جرنلز شامل ہوں گے۔ بلاشبہ تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ اور بالخصوص متصوفانہ افکار و احوال کی ترویج کے حوالے سے پنجاب حکومت کا یہ انتہائی اہم اور موثر قدم ہے، جو روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل میں سنگ میل ثابت ہو گا اور اس کے ساتھ صوبہ بھر کے وہ مضافاتی اور دیہاتی قریے‘ جہاں کے سٹوڈنٹس ان مطالعاتی اور تحقیقی ضروریات و سہولیات سے محروم ہیں، کے لیے اس کی بہم رسانی بہت بڑی نعمت ثابت ہوگی۔ہمارے ہاں گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل سائنسز سمیت دیگر مشرقی علوم و فنون سے جو اعراض برتا جا رہا تھا،اس مرکز تحقیق کے قیام سے اس کوتاہی کا کسی نہ کسی سطح پہ کچھ نہ کچھ ازالہ ضرور ہو گا۔ اس عظیم اور وقیع علمی و تحقیقی پراجیکٹ کو امام الشیخ ابوالحسن الشاذلیؒ کی شخصیت کے ساتھ بطور خاص منسوب کیا گیا ہے، جو تیرہویں صدی عیسویں کے جلیل القدر روحانی بزرگ اور فقہ و تصوف کے امام تھے۔ برصغیر میں یہ سلسلہ زیادہ مانوس و معروف تو نہ ہے مگر اس سلسلے کی شخصیات کی تشریف آوری اور فیض رسانی کسی نہ کسی حوالے سے یہاں جاری رہی۔ ساتویں صدی ہجری‘ تیرہویں صدی عیسویں تصوف کے فروغ اور ارتقا کے حوالے سے اہمیت کی حامل تھی‘ اس عہد کے مخصوص سیاسی پس منظر کے سبب متصوفانہ افکار اور سلاسل طریقت کو خوب قبول عام میسر آیا‘ انہی ایام میں سلسلہ شاذلیہ کے بانی اور معروف صوفی سکالر الشیخ ابوالحسن الشاذلی (1258/656-1197/593) شمالی افریقہ میں سب سے معروف اور معتبر روحانی شخصیت کے طور پر معروف اور معتبر ہوئے۔ آپ مغرب الاقصیٰ میں پروان چڑھنے والے مخصوص صوفی افکار کے نمائندہ تھے‘ جو ان کے معاصر اور پیشرو صوفیہ مغرب کے ہاں پائے جاتے تھے‘ تاہم سفر حجاز کے دوران آپ کی ملاقات پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے بھی ہوئی‘ جنہوں نے آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا‘ یوں سلسلہ شاذلیہ‘ سلسلہ قادریہ سے بھی اتصال کا حامل ہوا۔ مغرب کے دیگر قابل ذکر صوفیا تحصیل علم و فن کے لیے مشرق کا رخ کرتے رہے۔ الشیخ ابوالحسن الشاذلی 593 ھ‘ 1197ء ، مغربی مراکو کے علاقے غمارہ میں موحدین کے آخری دور میں پیدا ہوئے۔ آپ حسنی النسب سادات سے تھے۔ آپ نے مالکی فقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، جو مغرب کی مقبول عام فقہ تھی۔ فقہی علوم میں دسترس کے سبب آپ اپنے عہد کے معروف فقہا میں شمار ہوتے۔ الشیخ الشاذلی‘ الشیخ عبدالسلام بن مشیش جو’’ قطب مغرب‘‘ کے طور پر معتبر تھے، سے از حد متاثر اور فیض یافتہ تھے‘ ان سے اکتساب فیض کے بعد ان کے حکم پر آپ نے’’ شازلہ‘‘ کی طرف رخت سفر باندھا، جوکہ تیونس میں واقع ہے۔ ابتدائی زہد و ریاضت کے بعد، آپ نے تیونس میں 625ھ ‘ 1228ء باقاعدہ صوفی زاویہ قائم کیا۔ تیونس کے عمائدین‘ اشرافیہ‘ سول سوسائٹی‘ شاہی خاندان سمیت زندگی کے جملہ شعبوں کے لوگ آپ کے احوال و افکار اور سلسلہ شاذلیہ کی تعلیمات سے ازحد متاثر ہوئے اور یوں آپ کے سلسلے کو اس خطے میں خوب فروغ میسر آیا۔ اس دوران آپ نے مصر و حجاز سمیت دنیا کے مختلف خطوں کے سفر کئے۔ سکندریہ میں بھی آپ نے باقاعدہ خانقاہ قائم کی۔ آپ محض مجاہدہ نفس اور تزکیہ باطن ہی کے قائل نہ تھے بلکہ باطل قوتوں کے خلاف عملی طور پر بھی جہاد میں شریک ہونے کے علمبردار تھے۔ الشیخ الشاذلی ؒنے 1258ء سفر حج کے دوران 63 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار’’ وادی حمیثرا‘‘ مصر میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت امام الشاذلیؒ نے بذات خود کوئی کتاب تصنیف نہیں فرمائی تاہم آپ ؒنے چند احزاب مرتب کئے جوکہ قرآنی آیات پر مشتمل تھے‘ ان میں سے حزب البحر اور حزب الانوار خاص طور پر قابل ذکر ہیں، یہ احزاب سلسلہ شاذلیہ کے علاوہ دیگر مشائخ تصوف کے ہاں بھی معروف و معتبر ہیں‘ ان احزاب واوراد کا بنیادی موضوع اللہ کی واحدانیت کا اثبات و اظہار اور روحانی طور پر انسانی روح اور اس کے وجود میں پاکیزگی کا فروغ ہے۔ الشیخ الشاذلی عقیدہ کی تصحیح پر سب سے زیادہ زور دیتے تھے، جس کے بغیر معرفت کا حصول ممکن نہیں‘ وہ شریعہ اور اشعری نظام عقائد کو رہنما کی حیثیت دیتے تھے‘ وہ اپنے معاصر شیخ اکبر ابن عربی 638ھ‘ 1240ء کے نظریہ واحدۃ الوجود کے برعکس ذکر اسماء الحسنی کو روحانی ارتقا کا اہم ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔ عقیدہ توحید کا اثبات اور اسماء الحسنیٰ کا ورد شاذلیہ سلسلے کی تعلیمات کے اہم ترین عناصر ہیں۔ آپ اورادو وظائف کی ادائیگی پر خاص زور دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان (ترجمہ): ’’اپنے پروردگار کی عبادت کرو کہ تمہیں یقین کی دولت حاصل ہو جائے۔‘‘ آپ کہتے تھے کہ انسان کی زندگی کے ہر لمحے میں ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے لیے ہے پس اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے انسان کو فراغت ہی نہیں مل سکتی۔ امام الشاذلیؒ فرمایا کرتے کہ کوئی اس وقت تک کسی مقام میں پختہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ ان چار آزمائشوں سے نہ گزرے: 1۔ دشمنوں کی دشمنی اور طعن و تشنیع۔ 2۔ دوستوں کی ملامت۔ 3۔ جاہلوں کے طعنے اور ایزا۔ 4۔ عالموں کا حسد۔ جب کوئی اس پر صبر کرے گا تو اللہ اس کو ایسا پیشوا بنائے گا جس کی پیروی کی جائے گی۔ الشیخ الشاذلی محبت و عشق رسالت مآب میں اس مقام پر تھے کہ وہ کہتے ہیں کہ چالیس برس سے ایک لمحہ کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نظروں سے پوشیدہ نہیں ہوئے اور اگر وہ ایک لمحہ کے لیے بھی میری نظروں سے اوجھل ہو جائیں تو میں خود کو مسلمانوں میں شمار نہ کروں۔ شاذلیہ سلسلہ حسب ذیل پانچ اصولوں پر قائم ہے جس کو اصول خمسہ کہا جاتا ہے: i۔ ظاہر و باطن ہر دو صورتوں میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ ii۔ اقوام و افعال‘ دونوں میں سنت کی اتباع کرو۔ iii۔ توجہ اور عدم توجہ‘ ہر دو صورت میں مخلوق سے اعراض کرو۔ iv۔ قلیل اور کثیر ہر دو صورتوں میں اللہ سے راضی رہو۔ v۔ خوشحالی اور تنگی ہر دو صورتوں میں اللہ کی طرف رجوع کرو۔ عصر حاضر میں یورپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمان اور مستشرقین اس سلسلے سے بہت متاثر ہوئے اور اس سلسلے کے خلفا اور متوسلین نے مغرب میں مسلم صوفی روایت کو جدید علمی انداز میں پیش کیا۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ یہ صوفی سلسلہ ابھی بھی فکری طور پر عامۃ المسلمین کو متاثر کر رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے علمی و تحقیقی مرکز کی ترتیب و تشکیل کو اسی سلسلے کی ایک خوبصورت اور موثر کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔