الیکشن کمشن کی مرتب کردہ ووٹر فہرستوں میں سنگین غلطیوں کا انکشاف ہوا ہے۔کراچی میں بلدیاتی امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرانے گیا تو ووٹر لسٹ میں اسے مردہ ظاہر کیا جا چکا تھا۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ 15ہزار ووٹروں کو ٹائپنگ کی غلطی سے مردہ افراد کی فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا اور دوبارہ تصدیق کے بعد الیکشن کمیشن کے ریکارڈمیں درستی کر لی گئی ہے۔قبل ازیں الیکشن کمیشن نے اعتراف کیا تھا کہ ووٹر لسٹوں میں 40لاکھ افراد کے کوائف غلط ہیں۔پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران بہت سے ووٹروں نے شکایت کی کہ ان کا نام دور دراز کے پولنگ سٹیشنوں یا دوسرے حلقوں کی ووٹر لسٹوں میں شامل کر دیا گیا۔کئی لوگ ووٹر لسٹوں میں موجود نقائص کی وجہ سے ووٹ کا حق استعمال نہ کر سکے۔ گزشتہ چند برسوں سے الیکشن کمیشن مسلسل سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا ہدف بنا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن پر قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں بھی تنقید کرتی رہی ہیں۔1985ء کے بعد جتنے انتخابات ہوئے وہ اسمبلی انتخابات تھے یا بلدیاتی ،انتخابی عمل اور انتظامات پر اعتراضات وارد ہوتے رہے۔2013ء کے عام انتخابات کے نتائج آئے تو شاید اکیلی مسلم لیگ ن تھی جو کوئی اعتراض نہ کر رہی تھی۔پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف‘ جمعیت علماء اسلام‘ جماعت اسلامی اور علاقائی جماعتوں نے ان انتخابات میں ریٹرننگ افسران پر براہ راست انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا الزام لگایا۔تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع کی وہ سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔اسلام آباد میں 126دن تک دھرنا دیا گیا۔مطالبہ کیا گیا کہ دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں۔تحریک انصاف درجنوں حلقوں کو کھالنے کا مطالبہ کر رہی تھی ،معاملہ چار حلقوں کے نتائج کی ازسرنو پڑتال پر طے پایا۔پڑتال کے دوران ثابت ہوا کہ خانیوالکے حلقے اور لاہور میں سردار ایاز صادق اور سعد رفیق کے حلقوں میں بے ضابطگی موجود تھی۔ سعد رفیق نے عدالت سے حکم امتناعی لے لیا‘ سیالکوٹ میںخواجہ آصف کے حلقے میں کوئی خرابی سامنے نہ آ سکی جبکہ ایاز صادق اور خانیوال کے حلقے میں دوبارہ انتخابات ہوئے۔خانیوال کی نشست پی ٹی آئی کو مل گئی جبکہ لاہور میں ایاز صادق صرف 500ووٹوں کے فرق سے اپنی سیٹ بچا پائے۔ان تحقیقات اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ انتخابی عمل کی شفافیت تسلی بخش نہیں۔ ن لیگ کی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہوئے اور انتخابی اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا۔بدقسمتی سے اصلاحات کا یہ عمل آگے نہ بڑھ سکا اور 2018ء کے انتخابات میں تحریک کی جیت پر جو اعتراضات وارد ہوئے ان میں آر ٹی ایس سسٹم کا بیٹھ جانا بھی شامل تھا۔ عمران خان کو منتخب وزیر اعظم تسلیم کرنے کی بجائے انہیں سلیکٹڈ کہا گیا۔دھاندلی کے الزامات اور خرابیوں کایہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں سرکاری عملہ قصور وار پایا گیا۔اندرون سندھ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جو دھاندلی اور تشدد کا سلسلہ نظر آیا اس پر حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کی اپنی جماعتیں سراپا احتجاج رہیں۔ جمعیت علماء اسلام نے بھر پور احتجاج کا اعلان کیا جو بعد میں سیاسی انداز میں معاملات طے ہونے پر ختم ہو گیا۔ پنجاب میں حالیہ 20صوبائی حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔تحریک انصاف اگرچہ 15حلقوں پر کامیاب رہی لیکن اس نے انتخابی عمل پر مختلف قوتوں کی جانب سے اثرانداز ہونے کی شکایت کی۔اب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے۔الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 9حلقوں پر ضمنی انتخابات کا اعلان کر دیا ہے لیکن انتخابی عمل کی شفافیت اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کے حوالے سے خدشات کا خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا۔اس کی وجہ شائد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الیکشن کمیشن بہت سے سیاسی تنازعات کا محور بن چکا ہے۔منحرف اراکین کے معاملے پر تاخیر سے فیصلہ کرنے‘ تحریک انصاف کی متعدد درخواستوں پر کارروائی نہ کرنے‘ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ سنانے اور فیصلے میں قانونی نکات سے زیادہ سیاسی نکات کو نمایاں کرنے پر تحریک انصاف چیف الیکشن کمشنر کو جانبدار قرار دے کر احتجاج کر رہی ہے۔چیف الیکشن کمشنر اپنے اوپر اعتراضات کا قانونی طور پر جو بھی جواب دیں حقیقت یہ ہے کہ ان کی سربراہی کے دوران الیکشن کمیشن تمام سیاسی قوتوں کو مساوی طور پر ساتھ لے کر نہیں چل سکا۔انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابی عمل کی مخالفت تو کر دی لیکن تاحال انتخابی شفافیت کی بابت کوئی یقین دہانی نہیں کرا سکے ۔وہ شفافیت کہ جو اے وی ایم کے توسط سے ممکن بنائی جا سکتی تھیں۔ اگلے عام انتخابات سر پر ہیں۔الیکشن کمیشن کو بہت سا کام کرنا ہے۔ووٹر لسٹوں اور نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے امور کو ہم آہنگ بنانا ہے۔ان تمام اعتراضات کو دور کرنے کا بندوبست کرنا ہے جو ہر انتخابی عمل کو مسلسل متنازع بناتے رہے ہیں۔انتخابی عملے کی تربیت‘ عملے کو سیاسی و انتظامی دبائو سے بچانا۔پولنگ سٹیشنوں کی تشکیل حفاظتی انتظامات ‘ ووٹوں کی محفو ظ گنتی اور پھر انتخابی نتائج کو کسی تنازع سے محفوظ رکھنا الیکشن کمشن کا کام ہے۔ ووٹر لسٹوں میں موجود غلطیاں اور تحریک انصاف کی جانب سے امتیازی سلوک کی شکایات میں ایسے جھگڑے چھپے ہوئے ہیں جو صرف چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کی ساکھ برباد نہیں کریں گے بلکہ جمہوری عمل پر سے عوام کا اعتماد متزلزل کر سکتے ہیں۔