سرکارِ دو عالم سے محبت کو ہم نے تہواری بنا دیا ہے۔کیا عشق رسول ﷺ کوئی تہوار ہے کہ اسے فیسٹول کی طرح منایا جائے۔ اب تو حکومت وقت نے بھی ہفتہ عشق رسول ﷺ منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ یعنی ہم پورا ہفتہ عشق رسول ﷺ منائیں گے اور پھر اس کے بعد۔؟ آج عید میلادالنبی ؐ ہے۔ بے شک اس دن سے حسین ترین دن اس کائنات میں اور کوئی نہیں۔ اس روز خالقِ کائنات نے اس ہستی کو زمین پر رونق افروز کیا جس کے لئے یہ کائنات روزِ اول سے سجائی گئی تھی۔ نبی پاک ﷺ سے محبت کا تقاضا صرف یہ نہیں کہ ہم چار دن گھر‘ گلیاں اور بازار سجا لیں اور بس! چلیے ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ اس انداز سے جشن عید میلاد النبیؐ نہ منائیں۔مگر صرف اسی ایک طریقے سے جشن عید میلادالنبیؐ کو منسوب کر کے ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے یں کہ صرف گھر کو بتیوں سے سجا لیں‘ سینے پر مہر نبوت کا بیج آویزاں کر لیں تو نبیؐ سے محبت کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے۔بچوں کا ذکر میں نے اس لئے کہ ہم بڑوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کی تربیت اور سوچ کی سمت کو درست رکھیں۔ بتیاں لگائیں لیکن یہ بھی تو اہتمام کریں کہ اپنے دِلوں سے بغض‘ نفرت اور حسد کی تاریکی کو کیسے مٹانا ہے جن بازاروں کو عید میلادالنبیؐ کی خوشی میں ہم نے روشنیوں سے سجایا ہے‘ سبز رنگ کی جھنڈیوں سے دلآویز بنایا ہے‘ انہی بازاروں میں تاجر‘ جھوٹ بول کر اپنا مال بیچتے ہیں‘ انہی بازاروں میں ملاوٹ زدہ چیزیں گاہکوں کو فروخت کی جاتی ہیں‘ انہی بازاروں میں سود کا کاروبار ہوتا ہے۔ اپنی بازاروں میں لین دین کے نام پر بددیانتی ہوتی ہیں۔ آج 12ربیع الاول ہے اور تمام بڑی بڑی سرکاری عمارتوں کو جھلمل کرتی بتیوں سے سجایا گیا ہے۔ کل کے اخباروں میں قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلیوں کی عمارتوں کی تصاویر چھپیں گی اور کیپشن ہو گا‘ جشن عید میلادالنبیؐ پر فلاں عمارت کو روشنیوں سے سجا دیا گیا۔ان بڑی بڑی سرکاری عمارتوں میں عوام کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں‘ ان عمارتوں میں بیٹھنے والے معزز پاکستانی اپنے قول و فعل‘ اپنے عمل اور کردار کے آئینے میں رسول پاکؐ کی سیرت طیبہ‘سے کس قدر دور اور نابلد ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ جھوٹ‘کرپشن‘ بددیانتی‘ مفاد پرستی سے لتھڑے ہوئے لوگ‘ سیاسی مخالفین کے خلاف بغض اور نفرت سے بھرے اہل اختیار۔ پوری قوم کو بے سمت مسافرت سے تھکن آلود اور رائیگاں کرنے والے سیاسی رہنما!جن کی رہنمائی میں ملک ستر سالوں میں ایک دائرے میں سفر کر رہا ہے اور اہل اختیار پر ہی کیا موقوف‘ بدقسمتی سے جھوٹ‘ بددیانتی‘ کرپشن پورے معاشرے میں ایسے سرایت کر چکی ہے کہ اب ہر شخص ان تاریکیوں میں لتھڑا ہوا ہے۔ المیہ ہے ایک المیہ! کہ اس سماج میں استاد‘ استاد نہ رہا‘ عالم‘ بے عمل ہو گئے۔ بیشتر ٹک ٹاک پر اپنے لاکھوں فالورز کے ساتھ امت کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ نبی پاکؐ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں نے کیسا اسلامی معاشرہ تخلیق کیا ہے جہاں اہل اختیار اگر ظالم فاسق‘ جابر‘ بددیانت ‘ جھوٹا اور اخلاقی کردار سے عاری بھی ہو تو اسے معاشرہ سات سلام کرتا ہے‘ وہ قانون کو روند سکتا ہے۔ یہاں بے بس‘ بے کس‘ غریب‘ مظلوم‘ انصاف کے لئے دھکے کھاتا ہے‘ اس کی گھر کی عزتوں کو قانون کے رکھوالے بھی عزتیں نہیں سمجھتے۔ بے بس مظلوم انصاف مانگتا مانگتا قبر میں اتر جاتا ہے۔ نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والوں نے یہ کیسا معاشرہ تخلیق کیا ہے‘ جہاں ظالم پھلتا پھولتا ہے۔ وہ جھوٹ بول کر بھی سچ کو لاجواب کر دیتا ہے۔ وہ مفاد پرستی اور ہوسِ زر‘ کی حدیں پار کرتا جاتا ہے اور ایک اسلامی معاشرے میں اسے روکنے والا قانون آج تک وجود میں نہیں آتا۔ ہمارے معاشرے کے سارے طور طریقے منافقت پر استوار ہیں۔نبی پاک ﷺ نے منافق کی تین نشانیاں بتائی تھیں۔بولے تو جھوٹ بولے‘ وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ اوپر سے نیچے تک دیکھ لیں‘ منافق کی تینوں علامتیں‘ ہمارے کرداروں میں موجود ہیں۔ اس حدیث پاک کی روشنی میں‘ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے کردار اور گفتار کو پرکھ لیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اہل اختیار پر ہی موقوف نہیں ہے۔ اس معاشرے کابے اختیارشخص بھی ان ساری آلودگیوں سے لتھڑا ہوا ہے۔ جس نبیؐ کی امت ہونے کا ہمیں دعویٰ ہے‘جن سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں‘ جن سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا کردار تو چاندنی کا ایک سلسلہ ہے۔ روشنی کا ایک لامحدود کارواں، ہم جسے فراموش کر بیٹھے کہ نبیؐ سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان کی سیرت سے روشنی لے کر اپنے معاملات کو اپنی زندگیوں کو منور کریں۔ مگر ہم نے یہی سمجھ لیا کہ سال کے سال گھر اور بازار سجا کر عشق رسول ﷺ کا حق ادا کر دیا۔ خدا کے لئے سمجھیے اس بات کو اور اپنے بچوں کو بھی سمجھایے کہ نبیؐ کی محبت تہواری نہیں ہے۔یہ تو سانس سانس اسی ایک کیفیت میں زندگی بسر کرنے کا نام ہے جسے اسوۂ رسول ﷺ کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭