الزام ان پر یہ ہے کہ وہ ججز کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ کبھی وہ پولیس کو دھمکیاں دیتے ہیں‘ کبھی بیورو کریٹس کو خبردار کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی اکاؤنٹس کمیٹی میں ایک دلچسپ سوال یہ اٹھا کہ عمران خان نے کے پی حکومت کا ہیلی کاپٹر 166 گھنٹے استعمال کیا‘ جس کا ان کے پاس استحقاق نہیں تھا‘ جبکہ اس کی مینٹیننس پر 34 کروڑ 46 لاکھ خرچ ہوئے۔ اکاؤنٹس کمیٹی نے عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیئے۔ اس کے علاوہ جسٹس (ر) ثاقب نثار کو بھی طلب کیا گیا ہے کہ وہ آکر بتائیں کہ ڈیم فنڈ کہاں گیا۔ اس طرح ایک طرف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی عمران خان کا محاسبہ کررہی ہے‘ لیکن عمران خان ان تمام معاملات سے لاپرواہ ہوکر کسی کو خاطر میں نہیں لارہے۔ سب دائیں بائیں سے ان پر ایف آئی آر کاٹ رہے ہیں‘ لیکن وہ آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ یہ میں ان کی تاریخ اور پس منظر کے حوالے سے بتارہا ہوں۔ بھٹو صاحب کو جب ایوب خان نے نکالا تو انہوں نے پیپلز پارٹی بنائی اور اس کا Stance شروع سے دیکھ لیں۔ یہ صحیح ہے کہ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ نے گروم کیا۔ یہ پارٹی تین بار اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئی۔ ان کو گرفتار کیا گیا اوران پر طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں ایسی دفعہ لگائی گئی جس میں انہیں سزائے موت بھی ہوسکتی تھی اور پھر ان کو ان کی بیٹی کے ساتھ گرفتار کرلیا یہ تو زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن شریف فیملی میں نواز شریف اور مریم نواز نے کافی وقت تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ Stance رکھا۔ مولانا فضل الرحمن بھی گزشتہ 10 سال میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں جو کچھ کہتے رہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس اتحادی حکومت میں باقی جتنی جماعتیں ہیں ان کے نقطہ نگاہ سے بھی سب آگاہ ہیں۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم بھی شکوے کرتی نظر آتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جتنی بھی جماعتیں ہیں ان سب کا ماضی اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا ہے اور اس وقت یہ مقتدرہ کی حمایت سے اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان سر سے پاؤں تک ہیئت مقتدرہ کے لاڈلے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی کابینہ بھی مقتدرہ کے سہارے اور کہنے پر چلتی تھی۔ اس کا اعتراف بھی عمران خان خود کررہے ہیں۔ عمران اس وقت پرو اسٹیبلشمنٹ تھے اور آج اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ اب حکومت وقت جب کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈال پارہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ٹکر کے لوگ ہیں۔ اس میں آپ کو عمران کی شخصیت کا ایک تجزیہ کرنا پڑے گا۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی‘ جذباتی طرز فکر اور لہجہ کی تلخی یہ سب کچھ عمران کی کمزوریاں ہیں۔ انسان کو پراعتماد ہونا چاہئے۔ عمران نسبتاً ایک نیا چہرہ ہیں۔ لوگوں نے انہیں کرکٹ کھیلتے دیکھا۔ وہ جان مار کر کھیلنے والے کھلاڑی تھے۔ ورلڈکپ ان کی سرکردگی میں جیتا گیا۔ ان کی شخصیت میں ایک ہیرو شپ موجود تھی۔ بنیادی طور پر عام پاکستانی انہیں ایک اپ رائٹ بندہ سمجھتا تھا۔ انہوں نے شوکت خانم اسپتال بناکر یہ تصور بھی قائم کیا کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ قوم نے ان منصوبوں میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ عمران کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کا نقطہ نظر صحیح ہو یا غلط وہ اسے بڑے سلیقے‘ قرینے اور جذباتی انداز سے کہتے ہیں۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی خوبی کیلئے آپ کہہ سکتے ہیں وہ بہت اچھے مقرر ہیں۔ انہوں نے تمام میڈیا ذرائع سے اپنا ایک امیج بنایا ہے۔ اس لئے آپ دیکھیں وہ سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ پھر وہ ایک بیانیے پر بار بار زور دیتے ہیں۔ اس طرح کہتے ہیں کہ ان کی بات سو فیصد درست ہو۔ وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر اس طرح بھی پیش کرتے ہیں جس پر کوئی ان کی تردید نہیں مانتا۔ پھر انہوں نے نوجوانوں میں اپنی شخصیت کو ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ لوگ جو پرانے سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ کر بور ہورہے تھے ان کیلئے عمران ایک پرکشش اور نئی پیشکش تھے۔ اپنی وجیہہ شخصیت کے سبب وہ خواتین میں پسند کئے جاتے ہیں۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے حریف ان کے خلاف اس مقابلے کا بیانیہ پیش نہیں کرپارہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ وہ ایک ایسے کھلاڑی ہیں جن کی کارکردگی جیسی بھی ہو‘ لوگ انہیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ آج مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سال کی حکمرانی کے انداز اور اس کے نتائج نے ان کے امیج اور مقبولیت کو کمزور کیا تھا‘ لیکن اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید عمران پاکستان کیلئے وہ کچھ کرسکتے ہیں جو اور کوئی نہیں کرسکتا۔ ان کی یہ شہرت اور مقبولیت اس لئے زیادہ دیرپا نہیں ہوگی‘ کیونکہ انہیں جب بھی حکومت ملے گی ان سے لوگوں کا رومانس دھیما پڑنا شروع ہوجائے گا۔ جیسا ان کے گزشتہ چار سال کی حکومت کے دوران ہوا تھا۔ درحقیقت ان کو اس وقت اقتدار سے الگ کیا گیا جب ان کی شہرت ڈھلوان پر نیچے کی جانب لڑھک رہی تھی‘ لیکن ان کو ہٹاکر یہ تاثر قائم ہوا کہ ان کے ساتھ ظلم ہوگیا۔ اسی طرح جب ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے الگ کرکے انہیں لوگوں کا ہیرو بنادیا تھا۔ وہی کچھ عمران کے ساتھ ہوا ہے۔ عمران پر جتنا بھی دباؤ ڈالا جائے گا۔ اس کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کا امتحان اسی وقت شروع ہوگا جب اسے اقتدار ملے گا۔ ایک بار وہ اپنی شہرت اور مقبولیت کو تحلیل ہوتے دیکھ چکے ہیں۔بہتر یہی ہے کہ نت نئے تجربات کرنے سے بہتر ہے کہ میز پر بیٹھ کر آئندہ انتخابی معرکہ آرائی کے کسی شیڈول پر اتفاق رائے کرلیا جائے۔(ختم شد)