میاں نواز شریف نے نعرہ مستانہ بلند کر دیا ‘ مسلم لیگی متوالے خوش ہیں کہ قائد نے چپ کا روزہ توڑا اور اب عزت کی زندگی گزارنے کے لئے وہ سب راز کھولنے کو تیار ہیں جو سیاسی‘ خاندانی اور ذاتی مصلحتوں کے تحت عرصہ دراز سے ان کے سینے میں دفن تھے۔ میاں نواز شریف ایک کائیاں‘ موقع شناس اور تجربہ کار سیاستدان ہیں‘پرویز مشرف کو جل دے کر وہ اٹک قلعے سے نکلے اور جدہ کے سرور محل پہنچ گئے‘ آٹھ سالہ جلا وطنی کے بعد حالات نے پلٹا کھایا‘ کنڈولیزا رائس نے این آر او کی راہ دکھائی اور فوجی آمر این آر او کے دس گیارہ ماہ بعد ایوان اقتدار سے رخصت ہو گیا۔ پرویز مشرف کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی کہ ’’نواز شریف ملک میں واپس آ گیا تو پھر میں فارغ‘‘ این آر او کے ذریعے اپنے عرصہ اقتدار میں طوالت کا خواہش مند فوجی آمر عبرت کا نشانہ بن گیا ع پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں پچھلے سال میاں نواز شریف ہمارے قانونی نظام اور ریاست کی اندرونی کمزوریوں‘ اسٹیبلشمنٹ کے جذبہ انسانی ہمدردی اور اندرونی و بیرونی خیر خواہوں کے ٹھوس و ثمر آور رابطوں کے علاوہ میاں شہباز شریف کی خاموش سفارت کاری کا فائدہ اٹھا کر بغرض علاج لندن سدھارے تو عام خیال یہی تھا کہ جیل اور نیب سے اُکتائے میاں صاحب اگلے کم از کم ساڑھے تین سال تک خاموشی کی زندگی گزاریں گے‘ مریم نواز اُن کی عیادت اور ٹویٹ میں مگن رہیں گی اور حکومت کے علاوہ اپوزیشن کے بقول عمران خان کی پشت پناہ اسٹیبلشمنٹ چین کی بانسری بجائے گی۔ مسلم لیگ(ن) میاں شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کی روشنی میں اچھے بچّے کا کردار ادا کرے گی اور قوم ایک صفحے(Same Page)کے راگ درباری پر خوشی سے دھمال ڈالتی رہے گی۔ بلا شبہ میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی کسی مفاہمتی عمل کا نتیجہ تھی‘دس گیارہ ماہ کی خاموشی اس کا بین ثبوت‘ میاں صاحب بیرون ملک اور بیمار تھے مگر مریم نواز جاتی عمرا میں ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر اور ان کا ٹویٹر اکائونٹ منجمد‘ یہ محض اتفاق تھا نہ باپ بیٹی کی قلب ماہیت کا شاخسانہ‘ طے شدہ مفاہمتی فارمولے پر شق وار عملدرآمد کا نقطہ آغاز تھا مگر معلوم نہیں کیا اڑچن پڑی کہ مرد مفاہمت میاں شہباز شریف بھی برادر بزرگ کے مزاحمتی بیانئے کا دم بھرنے لگے اور شریف خاندان کو درون پردہ رابطوں کے لئے محمد زبیر عمر کا سہارا لینا پڑا؟یہ شریف خاندان کا میاں شہباز شریف پر عدم اعتماد تھا یا اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ پیغام کہ میاں شہباز شریف نے آپ کو جو یقین دہانیاں کرائیں‘ میاں نواز شریف کے لئے جو مراعات لیں اُسے قصۂ ماضی سمجھو‘ اب نئے سرے سے ڈیل ہو گی اور اس میں میاں شہباز شریف کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ میاں نواز شریف کو نئی ڈیل کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟کیا وہ خاموشی سے اُکتا گئے ہیں؟ انہیں مریم نواز کی رضا کارانہ زبان بندی اور سیاسی سرگرمیوں سے پرہیز کا دکھ ہے یا قومی‘ علاقائی اور بین الاقوامی حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سابق وزیر اعظم پاکستان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور وہ اپنے سینے میں چھپے راز افشا کرنے کی دھمکی دے کر اپنی شرائط منوا سکتے ہیں؟ بلا شبہ امریکہ چین چپقلش تیز ہو گئی ہے چین بھارت کشمکش فزوں تر ہے‘ عرب ممالک ایک ایک کر کے اسرائیل کی جھولی میں پکے ہوئے بیروں کی طرح گر رہے ہیں اور پاکستان کا چین پر انحصار ترکی‘ ملائشیا‘ ایران سے تعلقات میں گرم جوشی امریکہ کو پسند ہے نہ عالم عرب میں امریکہ کے اتحادیوں کو۔ اس کے باوجود کیا حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ میاں نواز شریف اپنے حلف کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر راز اگلنے لگیں‘اور اپنی شرائط منوا لیں۔ اے پی سی میں میاں صاحب کی جارحانہ تقریر اور مسلم لیگ کے علاوہ پی ڈی ایم کی تازہ سرگرمیوں سے بظاہر گمان یہی گزرتا ہے کہ قیام لندن کے دوران میاں صاحب کے سر پر کسی نے دست شفقت رکھ دیا ہے اندرون ملک بھی کوئی نہ کوئی ان سے رابطے میں ہے اور ہرچہ بادا باد کی پالیسی جہاندیدہ سرد گرم چشیدہ سیاستدان کا ترپ کا پتہ ہے جو اس نے لوہا گرم دیکھ کر کھیلا‘وہ ایک تیر سے دو شکار کر رہے ہیں اپنے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات سے توجہ ہٹانا اور وطن واپس لانے کی حکومتی کوششوں کو سیاسی انتقام کا رنگ دینا ان کے پیش نظر ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنا ان کا مدعا مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ میاں صاحب کو محمد زبیر اور دیگر پیغام رسانوں کے ذریعے علم ہو چکا ہے کہ انہیں ریاست اور حکومت کی طرف سے مزید رعائت ملنا ممکن ہے نہ مریم نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کا امکان۔ یہ خوف بھی دامنگیر ہے کہ کہیں حکومت انہیں واقعی برطانیہ بدر کرانے میں کامیاب ہی نہ ہو جائے جبکہ عدالتیں بھی مزید ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ۔میاں صاحب راز افشا کرنے کی دھمکی ضرور دے رہے ہیں مگر یہ یکطرفہ عمل نہیں‘ کچھ راز شیر کی خالہ کے پاس بھی ہیں جو خالہ کم دایہ زیادہ ہے۔ مسلم لیگ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں میاں صاحب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ 2014ء میں انہیں استعفیٰ دینے کا پیغام ملا تھا‘ مگر اگلے تین سال تک وہ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہے منتخب حکومت کے خلاف سازش پر کسی کے خلاف کارروائی کی نہ منتخب وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے والے کسی طاقتورکو ایکسپوز کیا‘ حتیٰ کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دیدیا۔پچھلے سال میاں صاحب نے پارٹی کو مدت ملازمت میں توسیع کے بل پر آنکھیں کان اور زبان بند کر کے انگوٹھا لگانے کا جو حکم دیا وہ بھی ایک راز ہے ایسا کھلا راز جس کی مزید قیمت وصول کرنے کی خواہش نے برادر خورد کو پابند سلاسل کرا دیا اور باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ میاں نواز شریف کی برہنہ گوئی اور مریم نواز کی گرم گفتاری نے اسٹیبلشمنٹ کے اس حصے کو عمران خان کے روبرو شرمندہ کر دیا ہے جس کا خیال تھا کہ بڑے میاں صاحب کی ضمانت پر رہائی اور رضا کارانہ جلا وطنی کے عوض مسلم لیگ(ن) موجودہ عبوری ڈھانچے کو کمزور نہیں کرے گی اور محاذ آرائی و عدم استحکام کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہو گی‘ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد مریم نواز شریف گروپ مسلم لیگ میں مضبوط ہوا اور جوسینئر رہنما دختر نیک اختر کی موجودگی میں چودھری نثار علی خاں کی طرح اپنے آپ کو آسودہ محسوس نہیں کرتے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ میاں صاحب خود تو غلامی کی زندگی بسر کرنا نہیں چاہتے مگر ہمیں اپنے بچوں کی غلامی پر مجبور کر رہے ہیں۔ احسن اقبال‘ خواجہ آصف‘ رانا تنویر اور بہت سے دیگرسینئرز دوراہے پر کھڑے ہیں چودھری نثار علی خان فی الحال منقارزیر پر ہیں مگر تابکے؟ میاں شہباز شریف کی گرفتاری سے اندرونی تفریق کم نہیں زیادہ ہو گی‘ تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔